Skip to content

Month: July 2020

پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا

پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا
خوشی نے دِل سا دُکھایا تو باپ رونے لگا

یہ رات کھانستے رہتے ہیں کوفت ہوتی ہے
بہو نے سب میں جتایا تو باپ رونے لگا

جو اَمّی نہ رہیں تو کیا ہُوا کہ ہم سب ہیں
جواب بن نہیں پایا تو باپ رونے لگا

نہ جانے کب سے وُہ نمبر ملا رَہا تھا مرا
کہ جونہی فون اُٹھایا تو باپ رونے لگا

ہزار بار اُسے روکا تھا میں نے سگریٹ سے
جو آج چھین بجھایا تو باپ رونے لگا

بٹھا کے رِکشے میں ، کل شب رَوانہ کرتے ہُوئے
دِیا جو میں نے کرایہ تو باپ رونے لگا

ہمیں بنا دِیئے کمرے خود اُس کو ٹی وی پر
مدینہ جب نظر آیا تو باپ رونے لگا

کل اُس کے دوست کو باہر سے ٹالنے کے بعد
اُسے فقیر بتایا تو باپ رونے لگا

بہن رَوانگی سے پہلے پیار لینے گئی
جو کچھ بھی دے نہیں پایا تو باپ رونے لگا

کیا ہی کیا ہے بھلا آج تک ہمارے لیے
سوال جونہی اُٹھایا تو باپ رونے لگا

اَذان بیٹے کے کانوں میں دے رہا تھا میں
اَذان دیتے جو پایا تو باپ رونے لگا

طبیب کہتا تھا پاگل کو کچھ بھی یاد نہیں
گلے سے میں نے لگایا تو باپ رونے لگا

لَحَد پہ اَبّو کی کل رات ایک مدت بعد
چراغ جونہی جلایا تو باپ رونے لگا

نہ جانے قیسؔ نے کس جذبے سے یہ کیا لکھا
کہ جونہی پڑھ کے سنایا تو باپ رونے لگا

شہزادقیس

Leave a Comment

میں ہوش میں نہیں رہا تھا اور بٙک گیا

میں ہوش میں نہیں رہا تھا اور بٙک گیا
تُجھ کو تو پورا ہوش تھا تُو کیوں بہک گیا
سانسوں میں ساری رات ہی خوشبو بھری رہی
کس کا خیال آیا کہ کمرہ مہک گیا
یہ بھی تو اِک طرح سے ہے توہین عشق کی
اُجڑا تو ایک مرتبہ تُجھ پر بھی شک گیا
اِس شہر میں تو کوئی مجھے جانتا نہیں
یہ پھول کون کیوں مری کھڑکی میں رکھ گیا
وہ کر رہا تھا فون پہ لہجہ بدل کے بات
پھر ایک دم سے ضبط کا دریا چھلک گیا
پچھلی محبتوں پہ بہت دیر تک ہنسا
میں اپنے ساتھ آج بڑی دُور تک گیا
وہ جس کو بھول بھال کے دُنیا کے ہو گئے
دیکھا اُسےتو آج بھی یہ دل دھڑک گیا
تُو نے تو مُڑ کے دفعتاً دیکھا تھا اِک نظر
پھر اُس کے بعد ہر کوئی رستہ بھٹک گیا
بستر سمیٹ لو پری زُلفوں کو باندھ لو
سورج طلوعِ صبح کی کوشش میں تھک گیا
میثم علی آغا

Leave a Comment

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ​

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ​
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ​

اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر​
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ​

سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں​
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ​

کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے​
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ​

ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا​
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ​

رزق، ملبوس ، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا​
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ​

دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن​
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ

Leave a Comment

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم

مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے
آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم

شاید بہ قید زیست یہ ساعت نہ آ سکے
تم داستان شوق سنو اور سنائیں ہم

بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم

اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم

Leave a Comment

دل عجب جنس گراں قدر ہے بازار نہیں

دل عجب جنس گراں قدر ہے بازار نہیں
وے بہا سہل جو دیتے ہیں خریدار نہیں

کچھ تمھیں ملنے سے بیزار ہو میرے ورنہ
دوستی ننگ نہیں عیب نہیں عار نہیں

ایک دو بات کبھو ہم سے کہو یا نہ کہو
قدر کیا اپنی ہمیں اس لیے تکرار نہیں

ناز و انداز و ادا عشوہ و اغماض و حیا
آب و گل میں ترے سب کچھ ہے یہی پیار نہیں

صورت آئینے میں ٹک دیکھ تو کیا صورت ہے
بدزبانی تجھے اس منھ پہ سزاوار نہیں

دل کے الجھاؤ کو کیا تجھ سے کہوں اے ناصح
تو کسو زلف کے پھندے میں گرفتار نہیں

اس کے کاکل کی پہیلی کہو تم بوجھے میرؔ
کیا ہے زنجیر نہیں دام نہیں مار نہیں

Leave a Comment

لیتے تھے لطف ہم اَدَبی اختلاف کا

لیتے تھے لطف ہم اَدَبی اختلاف کا
چیخوف اُسے پسند تھا اور مجھ کو کافکا

میں گھومتا ہوں، گھومتی کرسی پہ، دل کے گِرد
لیتا ہوں اجر، خانہِ رب کے طواف کا

مجھ کو سزا سنا دی گئی، دی بھی جا چکی
تو اب بھی منتظر ہے مرے اعتراف کا؟

اُس دل سے ہو کے نور مڑا جب مری طرف
سمجھا میں پہلی بار،اصول انعطاف کا

خلوت منائیں، دھیان لگائیں، دروں کو جائیں
موقع بھی دے رہی ہے وبا، اعتکاف کا

سردی تھی یا اندھیرے کا ڈر تھا کہ رات، خوف
کونا پکڑ کے بیٹھ گیا تھا لحاف کا

کندہ کیا ہے عشق نے اک زخم روح پر
کیسا نیا طریقہ ہے آٹو گراف کا

یکتائی کیا ہے، یہ تجھے سمجھائے گا وہ شخص
مرکز سمجھ چکا ہو جو کالے شگاف کا

دیکھو! تمام دل، ہمہ تن گوش ہیں، عمیر!
اب وقت ہو چکا ہے مرے انکشاف کا

عمیر نجمی

Leave a Comment

جو نباتات و جمادات پہ شک کرتے ہیں

جو نباتات و جمادات پہ شک کرتے ہیں
اے خدا تیرے کمالات پہ شک کرتے ہیں
۔
وہ جو کہتے ہیں دھماکے سے جہاں خلق ہوا
درحقیقت وہ سماوات پہ شک کرتے ہیں
۔
میں بھی بچپن میں تفکُّر پہ یقیں رکھتا تھا
میرے بچّے بھی روایات پہ شک کرتے ہیں
۔
میں اُسی شہر میں آنسو لئے پھرتا ہوں جہاں
پیڑ چڑیوں کی مناجات پہ شک کرتے ہیں
۔
اپنے حصّے میں وہ بے فیض صدی ہے جس میں
لوگ وَلیوں کی کرامات پہ شک کرتے ہیں
۔
اس لئے ہم پہ گزرتی ہے قیامت ہر دن
ہم قیامت کی علامات پہ شک کرتے ہیں
۔
آپ کے کھیت میں اُگتی ہے سنہری گندم
آپ کیوں اُس کی عنایات پہ شک کرتے ہیں
۔
جن کو مُوسیٰ کا پتہ ہے نہ خبر طُور کی ہے
ایسے بدبخت بھی تورات پہ شک کرتے ہیں
۔
’’عشق کی عین‘‘ کا تو دشت میں مدفن ہی نہیں
عاشِقاں یونہی خرابات پہ شک کرتے ہیں
۔
آپ جھرنوں کی تلاوت کو نہیں سن سکتے
آپ فطرت کے اشارات پہ شک کرتے ہیں
۔
صرف شاعر ہی نہیں ہوں میں مسلمان بھی ہوں
آپ کیوں میری عبادات پہ شک کرتے ہیں
۔
آپ کو چاہئے سقراط کے بارے میں پڑھیں
آپ واصف کے خیالات پہ شک کرتے ہیں

Leave a Comment
%d bloggers like this: