Skip to content

Month: July 2020

میں مست الست کا بھید ہوں میں مستوں میں نروان

میں مست الست کا بھید ہوں میں مستوں میں نروان
میں پہلا نقطہ ب کا ہوں میں الف کا ہوں استھان
۔
میرے رخ پر گونگھٹ میم کا میں آپ ہوں جیم جمال
میرا ماتھا فقر کا جھومر ہے میں ولیوں کا پردھان
۔
میرے من میں شور حقیقت کا میرے لب پر چپ کی سکھ
میرے جسم کے ٹکڑے ٹوٹ کے کریں ہُو ہُو کی گردان
۔
لے جکڑ یہ گردش دہر کی۔۔۔۔۔۔ لے پکڑ سمے کی چھاپ
میرے سامنے وجد میں رقص ہے اور رقص میں ہے وجدان
۔
میرے اندر ساگر پریم کے میرے اندر ہاڑ اُہاڑ
میرے اندر عشق کی آگ ہے میرے اندر دیپک تان
۔
میں ناچوں تا تھک تھیا میں گائوں میگھ ملہار
میرے گھنگھرو کرتے چھن چھن نئی ہستی کا نرمان
۔
میرے بِھیت بسے پرماتما میرے بھیتر گوتم بدھ
مجھے سجدہ کرنے آتے ہیں کئی مندر کئی بھگوان
۔
میری بات نہ میری بات ہے میری بات ماہی کی بات
میرے شعر حدیثیں یار کی میرے لفظ ہیں پاک قرآن
۔
مجھے کون ڈرائے دار سے میرا کلمہ نعرہء حیدری
میں عشق اویس ہوں قرن کا میں میثم کا اعلان
۔
میں نعرہ ہوں منصور کا میں بلھے شاہ کا رقص
میرا نغمہ نحنُ اقرب ہے میری کون کرے پہچان
۔
میرا در ہے کعبہ عشق کا میرے فیض سے پاپ دھلیں
میں نظر کرم ہوں پیر کی میں گنگا کا اشنان
۔
میں کوئی شرک شریک نہیں میں وحدت کا ہوں بھید
میں اس کے نور کا مظہر ہوں میں آدم، میں انسان
۔
اس جا پر میں ہوں، میں نہیں، اس جا پر میں ہوں تم
میں دیکھ کے شیشہ حال کا خود ہو گیا ہوں حیران
۔
یہاں کوئی نہ الف، امیر ہے میرا ایک ہے نام نجیب
میں آپ قلندر، غوث ہوں میں آپ سخی سلطان

1 Comment

اندر کا زہر چوم لیا دھل کے آ گئے

اندر کا زہر چوم لیا دھل کے آ گئے
کتنے شریف لوگ تھے سب کھل کے آ گئے

سورج سے جنگ جیتنے نکلے تھے بے وقوف
سارے سپاہی موم کے تھے گھل کے آ گئے

مسجد میں دور دور کوئی دوسرا نہ تھا
ہم آج اپنے آپ سے مل جل کے آ گئے

نیندوں سے جنگ ہوتی رہے گی تمام عمر
آنکھوں میں بند خواب اگر کھل کے آ گئے

سورج نے اپنی شکل بھی دیکھی تھی پہلی بار
آئینے کو مزے بھی تقابل کے آ گئے

انجانے سائے پھرنے لگے ہیں ادھر ادھر
موسم ہمارے شہر میں کابل کے آ گئے

راحت اندوری

Leave a Comment

‏اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام

‏اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام

‏مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام

بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام

‏جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام

محسن نقوی

Leave a Comment

مُحبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی

مُحبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی
بھری برسات ہے دریا کی طغیانی نہیں جاتی

مصیبت ٹل نہیں سکتی پریشانی نہیں جاتی
کسی کی بھی نصیحت عشق میں مانی نہیں جاتی

جو کل تک دَیر تھا ہم نے اسے کعبہ بنا ڈالا
مگر اس پر بھی اپنی کفر سامانی نہیں جاتی

مریضِ ہجر کو اب آپ پہچانیں تو پہچانیں
فرشتے سے اجل کے شکل پہچانی نہیں جاتی

تمہارا آستاں ہے اب ہماری آخری منزل
کسی بھی در کی ہم سے خاک اب چھانی نہیں جاتی

قیامت ہے تمہارا بن سنور کے سامنے آنا
مرا کیا ذکر ، آئینے کی حیرانی نہیں جاتی

وہی خودداریاں ہیں ، تمکنت ہے ، بے نیازی ہے
فقیری میں بھی اپنی شانِ سلطانی نہیں جاتی

یہ ممکن ہے ترے کوچے میں رہ کر جان سے جائیں
مگر تا مرگ تیرے در کی دربانی نہیں جاتی

تری رنجش ہو ، تیری بے رُخی ہو ، بد گمانی ہو
بڑی مشکل سے جاتی ہے بہ آسانی نہیں جاتی

تماری ناشناسائی کا شکوہ کیا کریں تم سے
ہمیں سے جب ہماری شکل پہچانی نہیں جاتی

جنونِ عشق سے جو بستیاں آباد ہوتی ہیں
بہاریں لاکھ آئیں اُنکی ویرانی نہیں جاتی

محبت تو نصیؔر ایسا طلاطم خیز دریا ہے
سفینے غرق ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

Leave a Comment

کچھ سرابوں پہ وار دی ہم نے

کچھ سرابوں پہ وار دی ہم نے
زندگی یوں گزار دی ہم نے

آئینہ دیکھ کر یوں گھبرائے
اپنی صورت اتار دی ہم نے

راستے نے تو منزلیں دی ہمیں
اس کو گرد و غبار دی ہم نے

سالِ فردا سے گفتگو جب کی
بس نویدِ بہار دی ہم نے

مانتا ہی نہیں جہاں ہم کو
گو دلیلیں ہزار دی ہم نے

اک نئی روح پھونک دی رب نے
کبھی ہمت جو ہار دی ہم نے

تہہ میں رکھی امید ہی ابرک
جب غزل سوگوار دی ہم نے

Leave a Comment

راز کھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

راز کھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں
میں سچ جو بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اچھے بھلے شریفوں کے ظاہر کو چھوڑ کر
اندر کو پھولتا ہُوں….. بڑا بدتمیز ہُوں

حرکت تو دیکھو میری کہ عہدِ یزید میں
انصاف تولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اخلاقیات کا میں جنازہ نکال کر
لہجے ٹٹولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کس کی مجال ہے کہ کہے مُجھ کو بدتمیز
میں خُود ہی بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کر کے غمِ حیات کی تلخی کا میں نشہ
دن رات ڈولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

ہر ایک شعر میں حق سچ کی شکل میں
میں زہر گھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

Leave a Comment

کیا حال سنائیں دُنیا کا

کیا حال سنائیں دُنیا کا
کیا بات بتائیں لوگوں کی
دنیا کے ہزاروں موسم ہیں
لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی

کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں
دنیا کو سنانے کے قابل
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں
بس دل میں چھپانے کے قابل

کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں
اک بار گئے تو آتے نہیں
ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں،
پرچھائیں بھی انکی پاتے نہیں

کچھ لوگ خیالوں کے اندر
جذبوں کی روانی ہوتے ہیں
کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح
پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں

کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں
کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو
تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں

کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ
کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا
کچھ لوگ مثال ابر رواں
کچھ اونچے درختوں کا سایہ

کچھ لوگ چراغوں کی صورت
راہوں میں اجالا کرتے ہیں
کچھ لوگ اندھیروں کی کالک
چہرے پر اچھالا کرتے ہیں

کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں
دو گام چلے اور رستے الگ
کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا
ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ

کیا حال سنائیں اپنا تمہیں
کیا بات بتائیں جیون کی
اک آنکھ ہماری ہستی ہے
اک آنکھ میں رت ہے ساون کی

ہم کس کی کہانی کا حصہ
ہم کس کی دعامیں شامل ہیں؟

Leave a Comment

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکُوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دَور ساقی کہ چھُپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے‌خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

کبھی جو آوارۂ جُنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا

سُنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

کِیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیرِ میخانہ سُن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

سفینۂ برگِ گُل بنا لے گا قافلہ مُورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا

چمن میں لالہ دِکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دِکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا

جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا

کہا جو قُمری سے مَیں نے اک دن، یہاں کے آزاد پا بہ گِل ہیں
تو غُنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

یہ رسمِ بزمِ فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبشِ نظر بھی
رہے گی کیا آبرُو ہماری جو تُو یہاں بے قرار ہو گا

میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدّعا تیری زندگی کا
تو اک نفَس میں جہاں سے مِٹنا تجھے مثالِ شرار ہو گا

نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی
کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا

Leave a Comment

اے ہم سُخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی

اے ہم سُخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
مَیں اپنے ہاتھ کاٹ لوں ــ تُو اپنے ہونٹ سی

کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نُور ــ نہ باتوں میں تازگی

بول اے میرے دیار کی سوئی ہُوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں ــ کہاں ہیں وہ آدمی؟

وہ شاعروں کا شہر ـ ـ وہ لاہور بُجھ گیا
اُگتے تھے جس میں شعر ــ وہ کھیتی ہی جل گئی

میٹھے تھے جن کے پھل ـ ـ وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں ــ وہ دیوار گر گئی

بازار بند ـ ـ راستے سُنسان ، بے چراغ
وہ رات ہے ــ کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی

گلیوں میں اب تو ـ ـ شام سے پھرتے ہیں پہرہ دار
ہے کوئی کوئی شمع ــ سو وہ بھی بُجھی بُجھی

اے روشنئ دیدہ و دل ـ ـ اب نظر بھی آ
دُنیا ترے فراق میں ــ اندھیر ہو گئی

القصہ ـ ـ جیب چاک ہی کرنی پڑی ہمیں
گو اِبتدائے غم میں ــ بڑی احتیاط کی

اب جی میں ہے ـ ـ کہ سر کسی پتھر سے پھوڑیئے
ممکن ہے ــ قلبِ سنگ سے نکلے کوئی پری

بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے ـ ـ کوئی دن
تصویر کھینچیے ــ کسی موجِ خیال کی

ناصرؔ ـــــــ بہت سی خُواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاؤں ــ وُہ بے فِکر زندگی

Leave a Comment
%d bloggers like this: