Skip to content

Month: June 2020

جنگ ٹھہری تھی میری گردش_تقدیر کے ساتھ

جنگ ٹھہری تھی میری گردش_تقدیر کے ساتھ
میں قفس میں بھی الجھتا رہا زنجیر کے ساتھ

اگر اس خواب کی تعبیر جدائی ہے تو پھر
ہم تو مر جائیں اس خواب کی تعبیر کے ساتھ

روح آباد کرو گئے تو بدن اجڑے گا
اک خرابی بھی جنم لیتی ہے تعبیر کے ساتھ

دل کے زخموں سے الجھتے ہیں بھٹک جاتے ہیں
لفظ ڈھلتے ہیں میرے شہر میں تاخیر کے ساتھ

ایسا قاتل ہے مسیحا کے با انداز جنوں
دل کو دل سے ملاتا ہے شمشیر کے ساتھ

آنکھ اب بھی برستا ہوا بادل ٹھہری
چاند اب کے بھی نظر آیا ہے تاخیر کے ساتھ

ہم جو نو وارد_ عقلیم سخن ہیں محسن
کبھی غالب کے مقلد تو کبھی میر کے ساتھ

Leave a Comment

ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮬﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺯﺧﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮬﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺯﺧﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ
ﻟﻤﺤﮧ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ ﮬﯽ ﺳﮩﯽ ، ﺍُﺳﮑﻮ ﺑﮭﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺸﻦِ ﺷﺐ ﻗﺪﺭ ﮐﯽ ﺳﺎﻋﺖ ﺁﺋﯽ
ﺁﺝ ﮬﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺁﻭﺍﺭﮦ ﮬﻮﺍؤں ﮐﯽ ﺗﮭﮑﻦ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﯾﮟ
ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﻥ ﺁﭖ ﻣﭩﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺯﻧﺪﮔﯽ !! ﺍﺏ ﺗﺠﮭﮯ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺩﻡ ﮔﮭﭩﺘﺎ ﮬﮯ
ﮬﻢ ﻧﮯ ﭼﺎﮬﺎ ﺗﮭﺎ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮬﻤﯿﮟ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﮐﺌﯿﮯ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮬﮯ
ﺩﺳﺖِ ﻗﺎﺗﻞ !! ﺗﯿﺮﺍ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻮ ﮬﻤﺪﺭﺩ ﺑﮩﺖ ﮬﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
ﮬﻨﺴﺘﮯ ﮬﻨﺴﺘﮯ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺭُﻻ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

Leave a Comment

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس اک داغ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، ، آستانے ترے

مظالم ترے عافیت آفریں
مراسم سہانے سہانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھرپور جب تک خزانے ترے

دلوں کو جراحت کا لطف آ گیا
لگے ہیں کچھ ایسے نشانے ترے

اسیروں کی دولت اسیری کا غم
نئے دام تیرے ، ، پرانے ترے

بس اک زخم نظارہ حصہ مرا
بہاریں تری ، ، آشیانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری ، ، بادہ خانے ترے

ضمیر صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے سب زمانے ترے

عدمؔ بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

عبد الحمید عدم

Leave a Comment

بتاؤ کون کہتا ہے, محبت بس کہانی ہے

بتاؤ کون کہتا ہے, محبت بس کہانی ہے
محبت تو صحیفہ ہے, محبت آسمانی ہے

محبت کو خدارا تم, کبھی بھی جھوٹ نہ سمجھو
محبت معجزہ ہے__ معجزوں کی ترجمانی ہے

محبت پھول کی خوشبو, محبت رنگ تتلی کا
محبت پربتوں کی جھیل کا شفاف پانی ہے

محبت اک ستارہ ہے, وفا کا استعارہ ہے
محبت سیپ کا موتی, بحر کی بیکرانی ہے

زمیں والے بتاؤ کس طرح سمجھیں محبت کو
محبت تو زمیں پر آسمانوں کی نشانی ہے

محبت روشنی ہے, رنگ ہے, خوشبو ہے , نغمہ ہے
محبت اڑتا پنچھی ہے, محبت بہتا پانی ہے

محبت ماؤں کا آنچل, محبت باپ کی شفقت
محبت ہر جگہ, ہر پل, خدا کا نقش ثانی ہے

محبت بہن کی الفت, محبت بھائی کی چاہت
محبت کھیلتا بچہ ہے اور چڑھتی جوانی ہے

محبت حق کا کلمہ ہے, محبت چاشنی من کی
محبت روح کا مرہم, دلوں کی حکمرانی ہے

محبت تو ازل سے ہے,محبت تا ابد ہوگی
محبت تو ہے آفاقی, زمانی نہ مکانی ہے

فنا ہو جاۓ گی دنیا, فنا ہو جائیں گے ہم تم
فقط باقی محبت ہے, محبت جاودانی ہے

Leave a Comment

دل نے وحشت گلی گلی کر لی

دل نے وحشت گلی گلی کر لی
اب گلہ کیا، بہت خوشی کر لی

یار! دل تو بلا کا تھا عیاش
اس نے کس طرح خود کشی کر لی

نہیں آئیں گے اپنے بس میں ہم
ہم نے کوشش رہی سہی کر لی

اب تو مجھ کو پسند آ جاؤ
میں نے خود میں بہت کمی کر لی

یہ جو حالت ہے اپنی، حالتِ زار
ہم نے خود اپنے آپ ہی کر لی

اب کریں کس کی بات ہم آخر
ہم نے تو اپنی بات بھی کر لی

قافلہ کب چلے گا خوابوں کا
ہم نے اک اور نیند بھی کر لی

اس کو یکسر بھلا دیا پھر سے
ایک بات اور کی ہوئی کر لی

آج بھی رات بھر کی بےخوابی
دلِ بیدار نے گھری کر لی

کیا خدا اس سے دل لگی کرتا
ہم نے تو اس سے بات بھی کر لی

جون ایلیاء

Leave a Comment

ہَنگامَہ ہے کیوں بَرپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

ہَنگامَہ ہے کیوں بَرپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے

نا تَجرِبَہ کاری سے واعِظ کی یہ ہیں باتیں
اِس رَنگ کو کَیا جانے پُوچھو تَو کبھی پی ہے

اُس مَے سے نہیں مَطلَب دِل جِس سے ہو بیگانہ
مَقصُود ہے اُس مَے سے دِل ہی میں جو کِھنچتی ہے

سُورج میں لَگے دَھبّا فِطرَت کے کَرِشمے ہیں
بُت ہَم کو کہیں کافَر اللہ کی مرضی ہے

اے شوق وہی مَے پی اے ہوش ذرا سو جا
مَہمانِ نَظَر اِس دم ایک برقِ تَجَلّی ہے

ہر ذرّہ چَمکتا ہے اَنوارِ اِلہٰی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تَو خُدا بھی ہے

واں دِل میں کہ صَدمے دو، یاں جی میں کہ سب سَہہ لو
اُن کا بھی عَجّب دِل ہے میرا بھی عَجّب جی ہے

تَعلِیم کا شَور اَیسا تَہذِیب کا غُل اِتنا
بَرکت جو نہیں ہوتی نِیََت کی خرابی ہے

سَچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعَتِ حق لازِم
ہاں تَرکِ مے و شاہد یہ اُن کی بُزرگی ہے

اکبرؔ الہ آبادی

Leave a Comment

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے ، نہیں ، ایسا نہیں

وارداتِ دل کا قصہ ہے ، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے ، میرا آئینہ نہیں

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں

تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق
تم کو اِس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں

اُن سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب
عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں

کب تری بوئے قبا سے بے وفائی دل نے کی
کب مجھے بادِ صبا نے خون رُلوایا نہیں

مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں

یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں

ثبت ہیں اس بام و در پر تیری آوازوں کے نقش
میں ، خدا نا کردہ، پتھر پوجنے والا نہیں

خامشی، کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں

کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجئے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

Leave a Comment

یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا

یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا
شبنم کو ہنسی آئی، دِل غنچوں کا بھر آیا

یہ کون تصوّر میں ہنگام سَحَر آیا
محسوس ہوا جیسے خود عرش اُتر آیا

خیر اُس کو نظر آیا، شر اُس کو نظر آیا
آئینے میں خود عکسِ آئینہ نگر آیا

اُس بزم سے دِل لے کر کیا آج اثر آیا
ظالم جسے سمجھے تھے، مظلُوم نظر آیا

اُس جانِ تغافل نے پھر یاد کیا شاید
پھر عہدِ محبت کا ہر نقش نظر آیا

گُلشن کی تباہی پر کیوں رنج کرے کوئی
اِلزام جو آنا تھا دیوانوں کے سر آیا

یہ محفلِ ہستی بھی کیا محفلِ ہستی ہے
جب کوئی اُٹھا پردہ، مَیں خود ہی نظر آیا

جگرؔ مراد آبادی

Leave a Comment

دل کو خیالِ یار نے مسحُور کر دیا

دل کو خیالِ یار نے مسحُور کر دیا
ساغر کو رنگِ بادہ نے پُرنُور کر دیا

مانوس ہو چلا تھا تسلّی سے حالِ دل
پھر تُو نے یاد آ کے ‘بدستور’ کر دیا

بیتابیوں سے چُھپ نہ سکا ماجرائے دِل
آخر، حضورِ یار بھی مذکور کر دیا

اہلِ نظر کو بھی، نظر آیا نہ رُوئے یار
یاں تک حجابِ یار نے مستور کر دیا

حسرتؔ بہت ہے مرتبۂ عاشقی بلند
تجھ کو تو مفت لوگوں نے مشہور کر دیا

حسرتؔ موہانی

Leave a Comment

ﮐﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﮐﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﺷﻨﺎﺱ ﻣﺮﻭﺕ ﻣﻴﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﻓﺴﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﭼﮭﭩﯽ ﺣﺲ ﻧﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﮩﺪِ ﺧﻼﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﺮﺍ ﯾﮧ ﺧﻮﻥ ﻣﺮﮮ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺮﺍﺳﺖ ﻣﻴﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻤﺎﻥ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﻣﺮﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ
ﻭﮔﺮﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﯿﮟ ﭼﭗ ﺭﮨﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﮮ ﮔﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺿﻤﯿﺮ
ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯼ ﺗﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻓﺮﺍﻍ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﺴﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﻟﯿﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

Leave a Comment
%d bloggers like this: