Skip to content

Month: June 2020

جینے کے حق میں آخری تاویل دی گئی

جینے کے حق میں آخری تاویل دی گئی
کٹنے لگی پتنگ تو پھر ڈھیل دی گئی

ساری رگوں نے آپسیں گٹھ جوڑ کر لیا
مشکل سے دل کو خون کی ترسیل دی گئی

بے فیض سا جو زخم تھا وہ بھر دیا گیا
اک محترم سی چوٹ تھی وہ چھیل دی گئی

پہلے بکھیر دی گئی ترتیب عمر کی
پھر لمحہ لمحہ جوڑ کے تشکیل دی گئی

موقع ء واردات پہ الٹے تھے سب ثبوت
لوگوں کو حادثے کی جو تفصیل دی گئی

کومل خریدنے چلے تھے وصل کی خوشی
ہم کو دکھائی اور تھی ، تبدیل دی گئی

Leave a Comment

بَجُز ہَوا، کوئی جانے نہ سِلسِلے تیرے

بَجُز ہَوا، کوئی جانے نہ سِلسِلے تیرے
میں اجنبی ہُوں، کرُوں کِس سے تذکرے تیرے

یہ کیسا قُرب کا موسم ہے، اے نگارِ چمن
ہَوامیں رنگ، نہ خوشبُو میں ذائقے تیرے

میں ٹھیک سے تِری چاہت تجھے جَتا نہ سکا
کہ میری راہ میں، حائل تھے مسئلے تیرے

کہاں سے لاؤں تِرا عکس اپنی آنکھوں میں
یہ لوگ دیکھنے آتے ہیں آئینے تیرے

گُلوں کو زخم، سِتاروں کو اپنے اشک کہُوں
سُناؤں خود کو، تِرے بعد تبصرے تیرے

یہ درد کم تو نہیں ہے، کہ تُو ہَمَیں نہ مِلا
یہ اور بات، کہ ہم بھی نہ ہو سکے تیرے

جُدائیوں کا تصور رُلا گیا تجھ کو
چراغ، شام سے پہلے ہی بُجھ گئے تیرے

ہزار نیند جلاؤں تِرے بغیر، مگر
میں خواب میں بھی نہ دیکھوں وہ رتجگے تیرے

ہَوائے موسمِ گُل کی ہیں لَورِیاں جیسے
بِکھر گئے ہوں فِضاؤں میں قہقہے تیرے

کسے خبر! کہ ہَمَیں اب بھی یاد ہیں، مُحسؔن
وہ کروَٹیں شبِ غم کی، وہ حوصلے تیرے

محسن نقوی

Leave a Comment

کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے

کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے
سیڑھیاں آتی رہیں سانپ کا خانہ نہ پڑے

دیکھ معمار پرندے بھی رہیں گھر بھی بنے
نقشہ ایسا ہو کوئی پیڑ گرانا نہ پڑے

اس تعلق سے نکلنے کا کوئی راستہ دے
اس پہاڑی پہ بھی بارود لگانا نہ پڑے

نم کی ترسیل سے آنکھوں کی حرارت کم ہو
سرد خانوں میں کوئی خواب پرانا نہ پڑے

ربط کی خیر ہے بس تیری انا بچ جائے
اس طرح جا کہ تجھے لوٹ کے آنا نہ پڑے

ہجر ایسا ہو کہ چہرے پہ نظر آ جائے
زخم ایسا ہو کہ دِکھ جائے دکھانا نہ پڑے

Leave a Comment

‏قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ

‏قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ

تُو بھی چاہے تو نہ چھوڑیں گے حکومت دل کی
ہم ہیں مسند پہ ترے غم کو بٹھائے ہوئے لوگ

اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار، ہم ہیں کسی محفل سےاٹھائے ہوئے لوگ

‏نام تو نام مجھے شکل بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ، وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ

آنکھ نے بور اٹھایا ہے درختوں کی طرح
یاد آتے ہیں اِسی رت میں بُھلائے ہوئے لوگ

حاکمِ شہر کو معلوم ہوا ہے تابش
جمع ہوتے ہیں کہیں چند ستائے ہوئے لوگ

عباس تابش

Leave a Comment

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے
میں تیرے ساتھ ہوں جب تک مرے جیسا نہ ملے

کم سے کم بدلے میں جنت اسے دے دی جاۓ
جس محبت کے گرفتار کو صحرا نہ ملے

مجھ کو اک رنگ عطا کر تا کہ پہچان رہے
کل کلاں یہ نہ ہو تجھے میرا چہرا نہ ملے

لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ بُرے آدمی ہیں
لوگ بھی ایسے جنہوں نے نہ کبھی دیکھا نہ ملے

بس یہی کہہ کہ اسے ہم نے خدا کو سونپا
اتفاقاََ کہیں مل جاۓ بھی تو روتا نہ ملے

تم لوگ دعا کرتے رہو کہ میرا سفر اچھا رہے
کوٸی مل جاۓ مگر عقل کا اندھا نہ ملے

مجھ کو دیکھا تو اچانک لپٹ کہ یوں روۓ
جیسے ماں کو کہیں سے گمشدہ بچہ نہ ملے

بددعا ہے کہ وہاں آٸیں جہاں بیٹھتے تھے
اور افکار وہاں آپ کو کہیں بیٹھا نہ ملے

Leave a Comment

وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے

وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے
اب ڈھونڈ مُجھے مجمعِ عُشاق سے آگے

اک سُرخ سمندر میں ترا ذکر بہت ہے
اے شخص گُزر ! دیدۂ نمناک سے آگے

اُس پار سے آتا کوئی دیکھوں تو یہ پُوچھوں
افلاک سے پیچھے ہوں کہ افلاک سے آگے

دم توڑ نہ دے اب کہیں خواہش کی ہوا بھی
یہ خاک تو اُڑتی نہیں خاشاک سے آگے

جو نقش اُبھارے تھے مٹانے بھی ہیں اُسنے
در پیش پھر اک چاک ہےاس چاک سے آگے

ہم زاد کی صُورت ہے مرے یار کی صُورت
مَیں کیسے نکل سکتا ہوں چالاک سے آگ

Leave a Comment

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں
ملا تھا غم کو بھی اک غم گسار یعنی میں

محبتیں نہ لُٹاتا تو اور کیا کرتا
وفورِ شوق کا آئینہ دار یعنی میں

عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹّی
بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار یعنی میں

چمک رہا تھا موافق تری توجّہ کے
خلوص و مہر و وفا کا دیار یعنی میں

مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفان
اور اس کے سامنے مشتِ غبار یعنی میں

ہوئی تھی جب بھی ترے التفات کی بارش
لہک اُٹھا تھا ترا لالہ زار یعنی میں

زہے نصیب! حوادث میں بھی نہیں ٹوٹا
ترا غرور، ترا افتخار یعنی میں

ہے مستقل مرے سینے میں درد یعنی توٗ
نہ رہ سکا ترے دل میں قرار یعنی میں

ہر ایک بات مری کر رہا تھا رد راغبؔ
مرے سخن پہ تھا کوئی سوار یعنی میں

افتخار راغبؔ

Leave a Comment

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے
پتھر پہ ہوں لکیر مٹا دیجئے مجھے

ہر روز مجھ سے تازہ شکایت ہے آپ کو
میں کیا ہوں، ایک بار بتا دیجئے مجھے

میرے سوا بھی ہے کوئی موضوعِ گفتگو
اپنا بھی کوئی رنگ دکھا دیجئے مجھے

میں کیا ہوں کس جگہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں
ہیں آپ کتنی دور صدا دیجئے مجھے

کی میں نے اپنے زخم کی تشہیر جا بجا
میں مانتا ہوں جرم سزا دیجئے مجھے

قائم تو ہو سکے کوئی رشتہ گہر کے ساتھ
گہرے سمندروں میں بہا دیجئے مجھے

شب بھر کرن کرن کو ترسنے سے فائدہ
ہے تیرگی تو آگ لگا دیجئے مجھے

جلتے دنوں میں خود پسِ دیوار بیٹھ کر
سائے کی جستجو میں لگا دیجئے مجھے

شہزادؔ یوں تو شعلۂ جاں سرد ہو چکا
لیکن سُلگ اٹھیں تو ہوا دیجئے مجھے

شہزاد احمد

Leave a Comment

کوئی بہلائے باتوں سے مگر یہ ڈرتا رہتا ہے

کوئی بہلائے باتوں سے مگر یہ ڈرتا رہتا ہے
دلِ برباد کی ہائے پریشانی نہیں جاتی

کسی بھی آشنا دستک پہ اب کھلتا نہیں ہے یہ
ترے جانے پہ دروازے کی حیرانی نہیں جاتی

قفس میں قید ہوتے ہیں کئی ارماں اڑانوں کے
رہا کر کے پرندے بھی پشیمانی نہیں جاتی

بدل جاتے ہیں سب چہرے سبھی اپنے پرایوں کے
حقیقی شکل بھی اب ہم سے پہچانی نہیں جاتی

بہت مجبور کرتا ہے ہمیں تیرے حوالے سے
کہ اب کچھ دل کے آگے عقل کی مانی نہیں جاتی

کسی آہٹ سے میرے خواب اور نیندیں گریزاں ہیں
تبھی تو میری آنکھوں کی یہ ویرانی نہیں جاتی

Leave a Comment
%d bloggers like this: