Skip to content

Month: January 2020

لوگوں کے لیے صاحبِ کردار بھی میں تھا

لوگوں کے لیے صاحبِ کردار بھی میں تھا
خوُد اپنی نگاہوں میں گُنہگار بھی میں تھا

کیوں اب مِرے مَنصب کی سلامی کو کھڑے ہو
یارو! کبھی رُسوا سرِ بازار بھی میں تھا

میں خوُد ہی چُھپا تھا کفِ قاتل کی شِکن میں
مقتوُل کی ٹوُٹی ہُوئی تلوار بھی میں تھا

میری ہی صدا لَوٹ کے آئی ہے مُجھی تک
شاید حدِ افلاک کے اُس پار بھی میں تھا

منزل پہ جو پہنچا ہُوں تو معلوم ہُوا ہے
خوُد اپنے لیے راہ کی دیوار بھی میں تھا

اب میرے تعارف سے گُریزاں ہے توُ، لیکن
کل تک تِری پہچان کا معیار بھی میں تھا

دیکھا تو میں اَفشا تھا ہر اِک ذہن پہ محسنؔ
سوچا تو پسِ پردہء اسرار بھی میں تھا

Leave a Comment

آسماں سے بھی ہم اتارے گئے

آسماں سے بھی ہم اتارے گئے
اور زمیں پر بھی کب سنوارے گئے
جیسے کٹتی ہیں ہجر کی راتیں
زیست ہم تجھ سے یوں گزارے گئے
بے رخی تک نہ بات پہنچی تھی
ہم عنایات میں ہی مارے گئے
جن کی خاطر پچھاڑا طوفاں کو
سب سے پہلے وہی کنارے گئے
ہم نے مڑ کر تمہی کو ڈھونڈا ہے
جب جہاں جس گھڑی پکارے گئے
نہ جگہ تھی ہماری جس دل میں
ہم اسی دل میں کیوں اتارے گئے
بولو وہ کیا کریں بصارت کا
جن کی آنکھوں کے سب نظارے گئے
جینا آسان ہو گیا تیرا
جب سے ابرک ترے سہارے گئے

اتباف ابرک

Leave a Comment

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے

ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے

یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے

وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے

جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے

جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے

ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے

امجد اسلام امجدؔ

Leave a Comment

میں لفظ چُنوں

میں لفظ چُنوں __ دلکش چُنوں
پھر ان سے “” تیرا “” احساس بُنوں

تجھے لکھوں میں ” دھڑکن” اس دل کی
یا تجھ کو ابر کی __ رم جھم لکھوں

ستاروں کی عجب __ جھلمل کبھی
پلکوں کی تجھے “” شبنم “” لکھوں

کبھی کہہ دوں تجھے میں جاں اپنی
کبھی تجھ کو میں اپنا محرم لکھوں

کبھی لکھ دوں تجھے __ ہر درد اپنا
کبھی تجھ کو زخم کا ” مرہم” لکھوں

تو زیست کی ہے _ امید میری
میں تجھ کو خوشی کی” نوید “لکھوں

لفظوں پہ نگاہ جو ڈالوں __ کبھی
ہر لفظ کو” بیاں “سے عاجز لکھوں!!

میں تجھ کو تکوں _ تکتی جاؤں
میں تجھ کو میری “” تمہید “” لکھوں

تم گفت ہو میرے _ اس دل کی
میں “” تجھ “” کو فقط شنید لکھوں

Leave a Comment

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا

کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا

ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہ آپ کی وہ بلانا بدل گیا

ابرک ہمیں بدل کے یوں خوش یار لوگ ہیں
جیسے کوئی خراب سا پرزہ بدل گیا

‎اتباف_ابرک

Leave a Comment

وہ خیال تھا کوئی دھنک نما

وہ خیال تھا کوئی دھنک نما
یا کوئی عکس تھا میرے روبرو؟
مجھے ہر طرف سے تو لگا
وہ تو ہی تھا یا کوئی ہو بہو؟
بیان میں تھی وہ چاشنی
کہ مہک رہا تھا حرف حرف
جیسے خوسشبوؤں کی زبان میں
کوئی کر رہا ہو گفتگو
نہیں کچھ خبر کہ کس گھڑی
ترے راستوں کا سرا ملے
تیرے نقشِ پا کی تلاش میں
لگی تو ہے میری جستجو
بس دیکھنا ہے کس طرح
وہ جی رہی ہے میرے بغیر
یوں تو دل میں ہے وہ آج بھی
جسے ڈھونڈتا ہوں میں کو بہ کو
یہ یاد تھا کہ دعا کروں،
پر اٹھے رہے میرے ہاتھ یوں
جیسے خواہشوں کے ہجوم میں
کہیں کھو گئی تیری آرزو

Leave a Comment

بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں

بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں
میں خُوش ہُوں اِس لِیے، کہ کوئی مہرباں نہیں

آغوشِ حادثات میں پائی ہے پروَرِش
جو برق پُھونک دے، وہ مِرا آشیاں نہیں

کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دُشوارِیوں پہ لوگ
ہُوں بے وَطن ضرُور، مگر بے نِشاں نہیں

گھبرائیے نہ گردشِ ایّام سے ہنوز
ترتیبِ فصل‌ِ گُل ہے یہ، دَورِ خِزاں نہیں

کُچھ برق سَوز تِنکے مجھے چاہئیں، شکیبؔ
جُھک جائیں گُل کے بار سے، وہ ڈالیاں نہیں

شکیبؔ جَلالی

Leave a Comment

ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﺑﻴﺪﻟﯽ ، ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﺑﻴﺪﻟﯽ ، ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺑﺲ ﺑﮩﺖ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ، ﺯﻧﺪﮔﯽ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺧﻮﺩ ﮐﻼﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﭨﮫ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﺍﺏ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﮮ ﺧﺎﻣﺸﯽ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺩﺍﺩ ﺑﮯ ﺩﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﯽ ﻧﮩﻴﮟ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ
ﺩﻭﺳﺘﻮ ! ﺷﮑﺮﻳﮧ ، ﺷﺎﻋﺮﯼ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺍﺏ ﻳﮧ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻧﮩﻴﮟ ﺁﺋﻴﮟ ﮔﮱ
ﺍﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﯽ ﻣﺮﯼ ﻭﺍﭘﺴﯽ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺑﮯ ﺧﻮﺩﯼ ﻣﻴﮟ ﺧﺪﺍﺉ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﻴﺎ
ﺍﮮ ﺧﺪﺍ ﺩﺭﮔﺰﺭ ، ﺍﮮ ﺧﻮﺩﯼ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﮨﻮﺉ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﯽ
ﺭﺏّ _ ﺍﻣﺮﻭﺯ ﻭ ﻓﺮﺩﺍ ﻭ ﺩﯼ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺩﮬﻮﭖ ﮈﮬﻞ ﺑﮭﯽ ﭼﮑﯽ ، ﺳﺎﮰ ﺍﭨﮫ ﺑﮭﯽ ﭼﮑﮯ
ﺍﺏ ﻣﺮﮮ ﻳﺎﺭ ﮐﺲ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺍﮎ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻳﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻋﺎﺻﻢ ، ﭼﻠﻮ
ﺩﻭﺭ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺳﮩﯽ ، ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ

لیاقت علی عاصم

Leave a Comment

پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا

پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا
وہ اس کا سایہ تھا کہ وہی رشک حور تھا

کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا

رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا

شام فراق آئی تو دل ڈوبنے لگا
ہم کو بھی اپنے آپ پہ کتنا غرور تھا

چہرہ تھا یا صدا تھی کسی بھولی یاد کی
آنکھیں تھیں اس کی یارو کہ دریائے نور تھا

نکلا جو چاند آئی مہک تیز سی منیرؔ
میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضرور تھا

منیر نیازی

Leave a Comment
%d bloggers like this: