Skip to content

Month: January 2020

نہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر

نہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر
جو سنائی دے اُسے چپ سِکھا جو دکھائی دے اُسے خواب کر

ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا
جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر

مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر

کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تِھل کا مزاج دے کبھی چشمِ تِر کو چناب کر

یہ ہُجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی،
مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر

یہ جُلوسِ فصلِ بہار ہے تہی دست، یار، سجا اِسے
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر

Leave a Comment

ضرر رساں ہوں بہت، آشنا ہوں میں خود سے

ضرر رساں ہوں بہت، آشنا ہوں میں خود سے
تبھی تو فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوں میں خود سے

سلام! کون؟ کہیں مل چکے ہیں کیا پہلے؟
ہزار بار یہ سب کہہ چکا ہوں میں خود سے

جھگڑتے وقت ذرا بھی لحاظ رکھتا نہیں
اگرچہ عمر میں کافی بڑا ہوں میں خود سے

مجھے ملی ہے گزشتہ برس کی اک تصویر
کہیں کہیں سے بہت مل رہا ہوں میں خود سے

جو درمیان سے تم ہٹ گئے تو ایک گیا
تمہاری سوچ ہے، جتنا خفا ہوں میں خود سے

سوال لکھ کے یہاں رکھ دو اور تم جاؤ
یہ کام کر لوں تو پھر پوچھتا ہوں میں خود سے

کہاں تلاش کروں؟ کیا کہوں کسی سے، عمیر!
کہ آتے جاتے کہیں گر گیا ہوں میں خود سے؟

عمیر نجمی

Leave a Comment

وہ مثلِ آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا

وہ مثلِ آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا

میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا

وصال و ہجر کے پھل دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا

مسلّم تھی سخاوت جس کی دنیا بھر میں اس نے
مجھے تنخواہ بے دینار پر رکھا ہوا تھا

خطِ تقدیر کے سفاک و افسردہ سرے پر
مرا آنسو بھی دستِ یار پر رکھا ہوا تھا

فلک نے اس کو پالا تھا بڑے ناز و نعم سے
ستارہ جو ترے رخسار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تری تلوار پر رکھا ہوا تھا

وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا

ترے رستے میں میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا

جمال احسانی

Leave a Comment

نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں

نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں
یعنی میں اتنا عام تھا ہی نہیں

خواب سے کام تھا وہاں کہ جہاں
خواب کا کوئی کام تھا ہی نہیں

سب خبر کرنے والوں پر افسوس
یہ خبر کا مقام تھا ہی نہیں

تہ بہ تہ انتقام تھا سر خاک
انہدام انہدام تھا ہی نہیں

ہم نے توہین کی قیام کیا
اس سفر میں قیام تھا ہی نہیں

اب تو ہے پر ہمارے وقتوں میں
شیشۂ صبح و شام تھا ہی نہیں

وہ تو ہم نے کہا کہ تم بھی ہو
ورنہ کوئی نظام تھا ہی نہیں

شاہین عباس

Leave a Comment

میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں

میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں
میں حادثہ ہوں اداس لوگوں میں رہ چکا ہوں

قدیم نسلوں کے گھر نحوست کا دیوتا تھا
جدید نسلوں کے زرد کمروں میں رہ چکا ہوں

میں نیم مردہ اسیر انساں کا قہقہہ ہوں
میں سرخ اینٹوں کے خونی پنجروں میں رہ چکا ہوں

میں ایسا سر ہوں جو دشت غربت میں کٹ گیا تھا
میں سر بریدہ شہید لاشوں میں رہ چکا ہوں

میں راجا گدھ ہوں نہ دشت زادہ نہ ماس خورہ
میں پھر بھی بستی کے مردہ خوروں میں رہ چکا ہوں

میں اسم اعظم کا معجزہ ہوں میں ناخدا ہوں
میں چاند تاروں میں اور غاروں میں رہ چکا ہوں

یقین جانو یہ میرے بالوں میں گرد دیکھو
میں شہر والا تمہارے گاؤں میں رہ چکا ہوں

میں یوم عاشور تشنگی کا سراب بن کر
خلیل زادوں کے خالی کوزوں میں رہ چکا ہوں

Leave a Comment

جانے اس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں


جانے اس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں
پھر سے ہو گیا شامل زندگی کے دھارے میں

اسم بھول بیٹھے ہم جسم بھول بیٹھے ہم
وہ ہمیں ملی یارو رات اک ستارے میں

اپنے اپنے گھر جا کر سکھ کی نیند سو جائیں
تو نہیں خسارے میں میں نہیں خسارے میں

میں نے دس برس پہلے جس کا نام رکھا تھا
کام کر رہی ہوگی جانے کس ادارے میں

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں

ثروتؔ حسین

Leave a Comment

اک گھڑی وصل کی بے وصل ہوئی ہے مجھ میں

اک گھڑی وصل کی بے وصل ہوئی ہے مجھ میں
کس کے آنے کی خبر قتل ہوئی ہے مجھ میں

سانس لینے سے بھی بھرتا نہیں سینے کا خلا
جانے کیا شے ہے جو بے دخل ہوئی ہے مجھ میں

جل اٹھے ہیں سر مژگاں تری خوشبو کے چراغ
اب کے خوابوں کی عجب فصل ہوئی ہے مجھ میں

مجھ سے باہر تو فقط شور ہے تنہائی کا
ورنہ یہ جنگ تو دراصل ہوئی ہے مجھ میں

تو نے دیکھا نہیں اک شخص کے جانے سے سلیمؔ
اس بھرے شہر کی جو شکل ہوئی ہے مجھ میں

سلیم کوثر

Leave a Comment

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday
Jinhain Tu ne Bakhsha hai Zauq-e-Khudai

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Asraar Banday.
Do Neem in ki Thokar se Sehra-o-Darya

Simat kar Pahar in ki Haibat se Raayee
Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Asrar Banday

Do Alam se Karti hai Begaana Dil ko
Ajab Cheez hai Lazzat-e-Ashnayee

Shahadat hai Maqsood-o-Matoob-e-Momin
Na Maal-e-Ghanimat na kishwar kushayee

Kiya Tu ne Sehra Nasheenon ko Yakta
Khabar mai Nazar mai Azaan-e-Sahar mai

Talab jis ki Sadyon se thi Zindagi ko
Woh Soz Us ne paya in hi ke jigar mai

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday
Jinhain Tu ne Bakhsha hai Zauq-e-Khudai

Kushad-e-Dar-Dil samajhtay hain usko
Halakat nahai maut in ki Nazar mai

Dil-e-Mard-e-Momin mai phir Zinda kar dai
Woh Bijli thi ke Nara-e-La Tazar mai

Azaaim ko Seenon mai Bedaar kar dai
Nigah-e-Musalma’n ko Talwar kar dai

Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday
Jinhain Tu ne Bakhsha hai Zauq-e-Khudai

Leave a Comment

نہ اپنے ہجر میں پژمردہ پا کے خوش ھے ہمیں

نہ اپنے ہجر میں پژمردہ پا کے خوش ھے ہمیں
نہ اپنے وصل میں شاداب دیکھ سکتا ھے

نہ چاہتا ھے کہ ہم حالتِ سکوں میں رہیں
نہ اپنے عشق میں بیتاب دیکھ سکتا ھے!

جمال احسانی

Leave a Comment
%d bloggers like this: