بچھڑ گئے تو یہ دِل عُمر بھر لگے گا نہیں
لگے گا ، لگنے لگا ہے مگر ۔۔۔ لگے گا نہیں
نہیں لگے گا اُسے دیکھ کر ، مگر خوش ہے
میں خوش نہیں ہوں ، مگر دیکھ کر لگے گا نہیں
عُمیر نجمی
Leave a Commentبچھڑ گئے تو یہ دِل عُمر بھر لگے گا نہیں
لگے گا ، لگنے لگا ہے مگر ۔۔۔ لگے گا نہیں
نہیں لگے گا اُسے دیکھ کر ، مگر خوش ہے
میں خوش نہیں ہوں ، مگر دیکھ کر لگے گا نہیں
عُمیر نجمی
Leave a Commentدن نکلے تو سوچ الگ ، شام ڈھلے وجدان الگ
امید الگ ، آس الگ ، سکون الگ ، طوفان الگ
تشبیہ دوں تو کس سے ، کہ تیرے حسن کا ہر رنگ
نیلا الگ ، زمرد الگ ، یاقوت الگ ، مرجان الگ
تیری الفت کے تقاضے بھی عجب انداز کے تھے
اقرار الگ ، تکرار الگ ، تعظیم الگ ، فرمان الگ
گر ساتھ نہیں دے سکتے تو بانٹ دو یکجان لمحے
مسرور الگ ، نڈھال الگ ، پرکیف الگ ، پریشان الگ
وقت رخصت الوداع کا لفظ جب کہنے لگے
آنسو الگ ، مسکان الگ ، بیتابی الگ ، ہیجان الگ
جب چھوڑ گیا ، تب دیکھا اپنی آنکھوں کا رنگ
حیران الگ ، پشیمان الگ ، سنسان الگ ، بیابان الگ
ہوندی پیار دی کھیڈ مُقدراں دی
کوئی جیت ویندا کوئی ہر ویندا
اے جھیل غماں دی نئی مُک دی
کوئی ڈُب وینڈا کوئی تر ویندا
یہ شرک ہے تصّورِ حسن وجمال میں
ہم کیوں ہیں تم اگر ہو ہمارے خیال میں
جب سے مرا خیال تری جلوہ گاہ ہے
آتا نہیں ہوں آپ بھی اپنے خیال میں
اٹھّا ترا حجاب نہ میرے اٹھے بغیر
میں آپ کھوگیا ترے ذوقِ وصال میں
بیداریِ حیات تھی ایک خوابِ بیخودی
نیند آگئی مجھے تری بزمِ جمال میں
اب ہر ادائے عشق میں اندازِ حسن ہے
اب میں ہی میں ہوں آپ کی بزمِ جمال میں
چھائے ہوئے ہیں حسن کے جلوے جہان پر
تم ہو خیال میں ، کہ نہیں کچھ خیال میں
ہاں اے خدا ئے حسن دعائے جنوں قبول
میں تجھ سے مانگتاہوں تجھی کو سوال میں
حد ہوگئی فریبِ تصور کی اے ذہین
میں خود کو پیش کرتا ہوں اس کی مثال میں
حضرت بابا ذہین شاہ تاجی
Leave a Commentہر اک ہزار میں بس پانچ، سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبانِ سکوت، بسم اللہ
خموشیوں کے مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہورِ ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
کسی کو راستہ دے دیں، کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ
کوئی تنتر منتر، تان کہے
کوئی گیتا، وید، قرآن کہے
اک بدھا، رام رحیم ہے جی
اک نور تو اک نروان کہے
سب اپنے اپنے من کی کی
کیا میں پاپی حیران کہے
اک کہہ دے بات اشاروں میں
اک بولے تو وجدان کہے
ہے برہما، شیو، اور وشنوجی
اک رام، کرشن بھگوان کہے
یہ کیسی گنجل رمز ہے جی
لقمان کہے، جبران کہے
اک نانک اوم کار کا ورد پڑھے
اک کان کھینچ اذان کہے
اک بلھا ناچے تا تھیا
اور منصور حیران، بے جان کہے
زیر، زبر، اور پیش ہے بس
تفسیر باہو سلطان کہے
قصہ ہیر کا رمز ہے جی
سب شعر ہیں تفسیر قرآن کہے
سب گنجل گنجل راز ہیں جی
بس سچا رب رحمان کہے
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
چل انشا اپنے گاوں میں
یہاں الجھے الجھے روپ بہت
پر اصلی کم بہروپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا
جہاں سایا کم ھو دھوپ بہت
چل انشا اپنے گاوں میں
بیٹھیں گے سکھ کی چھاوں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے
یہاں ہر اک بات نرالی ہے
اس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مفلس ھونا گالی ہے
چل انشا اپنے گاوں میں
جہاں سچے رشتے یاروں کے
جہاں وعدے پکے پیاروں کے
جہاں گھونگھٹ زیور ناروں کے
جہاں جھومیں کومل سر والے
جہاں ساز بجیں بن تاروں کے
کرے سجدہ وفا بھی پاوں میں
چل انشا اپنے گاوں میں
آنے والو جلدی آو، وقت نہیں
سمٹ رہا ہے اب پھیلاو، وقت نہیں
بس اک موج کی دوری پر ہوں میں تم سے
ہاتھ پکڑ لو؛ ہاتھ بڑھاو، وقت نہیں
وقت نہیں ہے اب تاخیر کا مطلب موت
لوگو! لوگوں کو سمجھاو، وقت نہیں
وہ جو وقت کا بالکل آخری لمحہ ہے
اس لمحے پر گھات لگاو؛ وقت نہیں
دشمن اس جنگل میں چھپ کر بیٹھا ہے
شہر کی جانب دیے بہاو، وقت نہیں
جلد ہی آگ لبوں تک بھی آ جائے گی
جلنے والو شور مچاو وقت نہیں
تم نے کہا تھا سارے گھاو بھر دیتا ہے
بھر دیتا ہے سارے گھاو وقت، نہیں!
پو پھٹنے میں ایک ستارہ باقی ہے
ڈوبنے سے پہلے سو جاو، وقت نہیں
چھو لینے سے منظر غائب ہو جائے گا
سعدی واپس خواب میں جاو، وقت نہیں
جُھک کے چلتا ہوں کہ قدّ اُس کے برابر نہ لگے
دوسرا یہ کہ اُسے راہ میں ٹھوکر نہ لگے
یہ ترے ساتھ تعلّق کا بڑا فائدہ ہے
آدمی ہو بھی تو اوقات سے باہر نہ لگے
نیم تاریک سا ماحول ہے درکار مجھے
ایسا ماحول جہاں آنکھ لگے ۔۔۔۔ ڈر نہ لگے
ماؤں نے چومنے ہوتے ہیں بریدہ سَر بھی
اُن سے کہنا کہ کوئی زخم جبیں پر نہ لگے
یہ طلب گار نگاہوں کے تقاضے ہر سُو
کوئی تو ایسی جگہ ہو جو ‘ مجھے گھر نہ لگے
یہ جو آئینہ ہے’ دیکھوں تو خلا دِکھتا ہے
اِس جگہ کچھ بھی نہ لگواؤں تو بہتر نہ لگے؟
تم نے چھوڑا تو کسی اور سے ٹکراؤں گا مَیں
کیسے ممکن ہے کہ اندھے کا کہیں سَر نہ لگے
عُمیـــر نجمــیؔ
Leave a Comment