Skip to content

Month: November 2019

یہ حادثات نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں

یہ حادثات نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں
شکستہ ہو کے بھی، ناقابلِ شکست ہوں میں

متاعِ درد سے دل مالا مال ہے میرا ،
زمانہ کیوں یہ سمجھتا ہےکہ تنگدست ہوں میں

یہ انکشاف ہوا ہی نہیں کبھی مُجھ پر
خُودی پرست ہوں میں یا خُدا پرست ہوں میں

نہ پا سکیں گے ‘جوانانِ بادہ مست’ مُجھے
خُود اپنی ذات میں ‘خُم خانہءِ الست’ ہوں میں

قبول کس نے کیا میری سرپرستی کو ؟
بظاہر “ایک قبیلے کا سرپرست ہوں میں”

مِلا ہے فقر تو ورثے میں جَدّ ِ امجد سے
!!مُجھے یہ فخر ہے ساقی کہ فاقہ مست ہوں میں ۔۔۔۔

Leave a Comment

گلاب آنکھیں شراب آنکھیں

گلاب آنکھیں شراب آنکھیں
یہی تو ہیں لاجواب آنکھیں

انہیں میں الفت انہیں میں نفرت
سوال آنکھیں عذاب آنکھیں

کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں

کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں

کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی
کسی نے پائی شراب آنکھیں

وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور آنکھیں جناب آنکھیں

عجب تھا یہ گفتگو کا عالم
سوال کوئی جواب آنکھیں

یہ مست مست بے مثال آنکھیں
نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں

اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں
گریں تو کر دیں کمال آنکھیں

کوئی ہے انکے کراہ کا طالب
کسی کا شوق وصال آنکھیں

نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں
کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں

ہیں جینے کا اک بہانہ یارو
یہ روح پرور جمال آنکھیں

درّاز پلکیں وصال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں

شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھی حلال آنکھیں

ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں

~ ساغر صدیقی

Leave a Comment

مَستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی ، بُھول گئے

مَستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی ، بُھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رھی ، بُھول گئے

حَرمِ ناز و اَدا ، تُجھ سے بچھڑنے والے
بُت گَری بُھول گئے ، بُت شِکنی بُھول گئے

کُوچہء کَج کَلہاں ! تیرے وہ ھجرت زَدگاں
خوُد سَری بُھول گئے ، خوُد نگری بُھول گئے

یُوں مُجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب
کیا میرے دوست ، میری سادہ دِلی بُھول گئے؟؟

میں تو بے حِس ھُوں، مُجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں رَوِشِ چارہ گَری بُھول گئے؟؟

مُجھے تاکیدِ شکیبائی کا بھیجا جو پیام
آپ شاید میری شوریدہ سَری بُھول گئے

اب میرے اَشکِ مُحبّت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ھی دامن کی نمی بُھول گئے

اب کوئی مُجھ کو دِلائے نہ مُحبّت کا یقیں
جو مُجھے بُھول نہ سکتے تھے ، وھی بُھول گئے

اور کیا چاھتی ھے گردشِ ایّام کہ ھم ؟؟
اپنا گھر بُھول گئے ، اُس کی گَلی بُھول گئے

کیا کہیں کِتنی ھی باتیں تھیں ، جو اب یاد نہیں
کیا کریں ھم سے بڑی بُھول ھُوئی، بُھول گئے

“جون ایلیاء”

Leave a Comment

یوسف نہ تھے ــ مـــگر سرِ بازار آ گئے

یوسف نہ تھے ــ مـــگر سرِ بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں ــ کہ خریدار آ گئے

ھم کج ادا چراغ ـ ـ کہ جب بھی ہوا چلی
تاقوں کو چھوڑ کر ــ سرِ دیوار آ گئے

پھر اس طرح ہُوا ـ ـ مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز ــ جانبِ دربار آ گئے

اَب دل میں حوصلہ ـ ـ نہ سکت بازوں میں ہے
اب کے مقابلے پہ ــ میرے یار آ گئے

آواز دے کے چُھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے ــ کہ ہر بار آ گئے

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سر بازار آ گئے

سورج کی روشنی پہ ـ ـ جنہیں ناز تھا فرازؔ
وہ بھی تو ــ زیرِ سایۂ دیوار آ گئے

فرازؔ

Leave a Comment

مِرےدِل کےبَست وکُشاد میں یہ نمُودکیسی نمُوکی ہے

مِرےدِل کےبَست وکُشاد میں یہ نمُودکیسی نمُوکی ہے
کبھی ایک دجلہ ہےخُون کا،کبھی ایک بُوندلہُو کی ہے

کبھی چاکِ خوُں سے چِپک گیا ، کبھی خار خار پُرو لِیا
مِرےبخیہ گرنہ ہُوں مُعترض،کہ یہ شکل بھی تورفوُکی ہے

نہ بہار اُن کی بہار ہے، نہ وہ آشیاں کے، نہ وہ باغ کے !
جنھیں ذکر،قیدوقفس کاہے،جنھیں فکر،طوق وگلُوکی ہے

یہی رہگُزر ہے بہار کی، یہی راستہ ہے بہار کا
یہ چمن سےتا بہ دَرِقفَس،جولکِیرمیرےلہُوکی ہے

نہ جنوُں، نہ شورِجنوُں رہا،تِرےوحشیوں کوہُواہےکیا
یہ فِضائے دہر تو مُنتظر ، فقط ایک نعرۂ ہُو کی ہے

ہمیں عُمربھربھی نہ مِل سکی،کبھی اِک گھڑی بھی سُکون کی
دلِ زخم زخم میں چارہ گر! کوئی اِک جگہ بھی رفو کی ہے ؟

تِری چشمِ مَست نے ساقیا! وہ نظامِ کیف بَدل دِیا
مگرآج بھی سَرِمیکدہ،وہی رسم جام وسبُوکی ہے

میں ہزارسوختہ جاں سہی، مِرےلب پہ لاکھ فُغاں سہی
نہ ہونااُمیدابھی عِشق سے،ابھی دِل میں بوندلہُوکی ہے

ابھی رِندہے، ابھی پارسا، تجھے تابش آج ہُوا ہے کیا ؟
کبھی جستجُومئےوجام کی،کبھی فکرآب ووضُوکی ہے.

Leave a Comment

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی

میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی

خدا کرے تجھے دوری ہی راس آ جائے
تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پر آ کر بھی

ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لٹا کر بھی

میں اس کو سطح سے محسوس کر کے بھی خوش ہوں
وہ مطمئن ہی نہیں میری تہہ کو پا کر بھی

ابھی تک اس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا
وہ چپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی

اسی ہجوم میں لڑ بھڑ کے زندگی کر لو
رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی

وہ لوگ اور ہی تھے جن کا عجز پھل لایا
ہمیں تو کچھ نہ ملا اپنے کو مٹا کر بھی

کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں
اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی

غزل کہے پہ بھی سوچوں کا بوجھ کم نہ ہوا
سکوں نہ مل سکا احوال دل سنا کر بھی

رکا نہ ظلم مرے راکھ بننے پر بھی
ہوا کی خو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی

Leave a Comment
%d bloggers like this: