Skip to content

یُوں چلے دَور تو رِندوں کا بڑا کام چَلے

یُوں چلے دَور تو رِندوں کا بڑا کام چَلے
خُم بڑھے شِیشہ جُھکے بادہ ڈَھلے جام چَلے

جِھیل کر اہل جہاں صَدمہ و آلام چَلے
شاد کام آئے جو دُنیا میں وہ ناکام چَلے

بے پِیے کُچھ نَہیں جِینے کا مَزہ اے ساقی
رات دن جام چَلے جام چَلے جام چَلے

کُوچۂ عِشق میں تَکلِیف ہی تَکلِیف رہی
ہم بہ آرام نہ آئے نہ بہ آرام چلے

ہاتھ پر ہاتھ دَھرے اہل نَظر بیٹھے ہیں
حُسن اگر کام چَلائے تو کوئی کام چلے

زِندہ رہنے کے مَقاصِد ہیں حَقِیقَت میں یہی
ہاتھ پاؤں اپنے چَلیں کام چلے نام چلے

وادئی عِشق میں رہبر کی ضَرُورَت کیا ہے
ہم چَلیں اور ہَمارا دِلِ ناکام چلے

مُسکراتے ہیں جو غُنچے،تو کِھلے جاتے ہیں پُھول
دَور جام ایسے میں اے ساقیٔ گُلفام چلے

غیر ممکن ہے بغیر اس کے محبت کا نباہ
دِل سے مِلتا نہیں جَب دل ہی تو کیا کام چلے

مُدعا یہ ہے نِکل آئے دَوبارہ خُورشِید
کہ جہاں شام ہوئی آپ سرِ بام چلے

کیوں کہا میں نے کہ سُن لِیجِئے رُودادِ سِتم
وہ بِگڑ کر اُٹھے دیتے ہوئے دَشنام چلے

حَضرت نوح اُٹھاتے ہیں جو طُوفانِ سُخن
شاید اس کا ہو یہ مَطلب کہ مرا نام چلے

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: