چاہا ہے تجھے میں نے تری ذات سے ہٹ کر
اس بار کھڑا ہوں میں روایات سے ہٹ کر
تم عشق کے قصے مجھے آکر نہ سناؤ
دنیا میں نہیں کچھ بھی مفادات سے ہٹ کر
جس شخص کو پوجا تھا اُسے مانگ رہا ہوں
میں مانگ رہا ہوں اُسے اوقات سے ہٹ کر
ہاں سوچ رہا ہوں میں تجھے اپنا بنا لوں
ہاں سوچ رہا ہوں میں خیالات سے ہٹ کر
واعظ نے کہا “عقل کہاں پر ہے تمھاری”
میں نے یہ کہا “خلد کے باغات سے ہٹ کر”
غم یہ ہے کہ میں اپنے قبیلے کا بڑا ہوں
چلنا ہی پڑے گا مجھے سقراط سے ہٹ کر
رہنا ہے مجھے اُس کی تمنا سے بہت دور
رہنا ہے مجھے ہجر کے حالات سے ہٹ کر
شہزاد مہدی
Be First to Comment