Skip to content

چاہا ہے تجھے میں نے تری ذات سے ہٹ کر

چاہا ہے تجھے میں نے تری ذات سے ہٹ کر
اس بار کھڑا ہوں میں روایات سے ہٹ کر

تم عشق کے قصے مجھے آکر نہ سناؤ
دنیا میں نہیں کچھ بھی مفادات سے ہٹ کر

جس شخص کو پوجا تھا اُسے مانگ رہا ہوں
میں مانگ رہا ہوں اُسے اوقات سے ہٹ کر

ہاں سوچ رہا ہوں میں تجھے اپنا بنا لوں
ہاں سوچ رہا ہوں میں خیالات سے ہٹ کر

واعظ نے کہا “عقل کہاں پر ہے تمھاری”
میں نے یہ کہا “خلد کے باغات سے ہٹ کر”

غم یہ ہے کہ میں اپنے قبیلے کا بڑا ہوں
چلنا ہی پڑے گا مجھے سقراط سے ہٹ کر

رہنا ہے مجھے اُس کی تمنا سے بہت دور
رہنا ہے مجھے ہجر کے حالات سے ہٹ کر

شہزاد مہدی

Published inGazalsSad PoetryUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: