چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
اک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
ہر آنگن میں آئے تیرے اجلے روپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال
بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے یہ ہرنی سی چال
کتنی سندر نار ہو کوئی میں آواز نہ دوں
تجھ سا جس کا نام نہیں ہے وہ جی کا جنجال
سامنے تو آئے تو دھڑکیں مل کر لاکھوں دل
اب جانا دھرتی پر کیسے آتے ہیں بھونچال
بیچ میں رنگ محل ہے تیرا کھائی چاروں اور
ہم سے ملنے کی اب گوری تو ہی راہ نکال
کر سکتے ہیں چاہ تری اب سرمدؔ یا منصورؔ
ملے کسی کو دار یہاں اور کھنچے کسی کی کھال
یہ دنیا ہے خود غرضوں کی لیکن یار قتیلؔ
تو نے ہمارا ساتھ دیا تو جیے ہزاروں سال
Be First to Comment