ٹوٹ جائیں گے بچا لے کوئی
خواب نیندوں سے چرا لے کوئی
ابھی روشن ہیں ان آنکھوں کے دیے
اپنی راہوں میں جلا لے کوئی
وقت نے چھوڑ دیا ہے پیچھے
قافلہ ساتھ ملا لے کوئی
ہم ہیں سامان سمیٹے بیٹھے
دے کے آواز بلا لے کوئی
کورے کاغذ کی طرح آئیں گے
جو بھی من چاہے لکھا لے کوئی
مہ کشی کفر سمجھتا ہوں میں
اور چاہے جو پلا لے کوئی
میرے اپنے تو نہیں مانیں گے
چلو اب غیر منا لے کوئی
مجھ کو تعمیر نہیں کر سکتا
میرا ملبہ ہی اٹھا لے کوئی
اپنی نیندوں سے تو ڈر لگتا ہے
اپنی نیندوں میں سلا لے کوئی
یونہی بے کار بکے جاتا ہوں
آج اپنی ہی سنا لے کوئی
پھر اسی ڈر سے کسی کا نہ ہوا
مجھے پھر سے نہ گنوا لے کوئی
گھپ اندھیروں میں نباہوں ابرک
اپنا سایہ جو بنا لے کوئی
اتباف ابرک
Be First to Comment