Skip to content

وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر

وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر
سمائے وہ میرے دل میں نہیں معلوم کیا ہو کر

میرا کہنا یہی ہے تو نہ رُخصت ہو خفا ہو کر
اب آگے تیری مرضی، جو بھی تیرا مُدعا ہو، کر

معاذاللّه! یہ عالم بتوں کی خود نمائی کا
کہ جیسے چھا ہی جائیں گے خدائی پر، خدا ہو کر

بہر صورت وہ دل والوں سے دل کو چھین لیتے ہیں
مچل کر، مسکرا کر، روٹھ کر، تن کر، خفا ہو کر

نہ چھوڑو ساتھ میرا ہجر کی شب ڈوبتے تارو
نہ پھیرو مجھ سے یوں آنکھیں، مرے غم آشنا ہو کر

اِنھیں پھر کون جانچے، کون تولے گا نگاہوں میں
اگر کانٹے رہیں گُلشن میں پھولوں سے جدا ہو کر

سنبھالیں اپنے دل کو ہم کہ روئیں اپنی قسمت کو
چلے ہیں اے نصیرِ زار، وہ ہم سے خفا ہو کر

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: