میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں ا ہوں
قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں کے میلے کتبے ے
دنوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں
شفق کی ٹھنڈی چتاؤں سے راکھ اڑ رہی ہے
جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے ہیں
جگہ جگہ ڈھیر ہو گئی ہیں عظیم صدیاں
میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں مقدس، ہتھیلیوں سے گری ہے مہندی
دیوں کی ٹوٹی ہوئی لویں زنگ کھا گئی ہیں
یہیں پہ ماتھوں کی روشنی جل کے بجھ گئی ہے
سپاٹ چہروں کے خالی پنے کھلے ہوئے ہیں
حروف آنکھوں کے مٹ چکے ہیں
میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں کہیں زندگی کے معنی گرے ہیں اور گر کے کھو گئے ہیں
گلزار
میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں ا ہوں
Published inSad Poetry
Be First to Comment