مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد
ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں
کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے
کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں
کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے میں
کام جتنے بھی محبّت کے ہیں، بیکار سے ہیں
تُو تو نادم نہ کر، اے یار! کہ تُجھ پر مِٹ کے
خودہم اپنی ہی نگاہوں میں گُنہگار سے ہیں
کہہ دِیا تُو نے جو معصُوم، تو معصُوم ہیں ہم
کہہ دِیا تُو نے گُنہگار، گُنہگار سے ہیں
سرفروشانِ محبّت پہ ہیں احساں تیرے
تیرے ہاتھوں یہ سُبک دوش، گراں بار سے ہیں
فراقؔ گورکھپُوری
Be First to Comment