لیتے تھے لطف ہم اَدَبی اختلاف کا
چیخوف اُسے پسند تھا اور مجھ کو کافکا
میں گھومتا ہوں، گھومتی کرسی پہ، دل کے گِرد
لیتا ہوں اجر، خانہِ رب کے طواف کا
مجھ کو سزا سنا دی گئی، دی بھی جا چکی
تو اب بھی منتظر ہے مرے اعتراف کا؟
اُس دل سے ہو کے نور مڑا جب مری طرف
سمجھا میں پہلی بار،اصول انعطاف کا
خلوت منائیں، دھیان لگائیں، دروں کو جائیں
موقع بھی دے رہی ہے وبا، اعتکاف کا
سردی تھی یا اندھیرے کا ڈر تھا کہ رات، خوف
کونا پکڑ کے بیٹھ گیا تھا لحاف کا
کندہ کیا ہے عشق نے اک زخم روح پر
کیسا نیا طریقہ ہے آٹو گراف کا
یکتائی کیا ہے، یہ تجھے سمجھائے گا وہ شخص
مرکز سمجھ چکا ہو جو کالے شگاف کا
دیکھو! تمام دل، ہمہ تن گوش ہیں، عمیر!
اب وقت ہو چکا ہے مرے انکشاف کا
عمیر نجمی
Be First to Comment