عشق تاثیر کرے اور وہ تسخیر بھی ہو
یہ تو سب کچھ ہو مگر خواہشِ تقدیر بھی ہو
کاش تجھ سے ہی مقابل تری تصویر بھی ہو
دعویِٰ ناز بھی ہو شوخیِ تحریر بھی ہو
جعل سازوں نے بنایا ہے شکایت نامہ
کیوں خفا آپ ہوئے یہ مری تحریر بھی ہو
طمعِ زر ہی سے انسان کی مٹی ہے خراب
خاک میں ہم تو ملا دیں اگر اکسیر بھی ہو
جب مقابل ہی نہ ہوں کس کو بتاؤں اچھا
سامنے آپ بھی ہوں آپ کی تصویر بھی ہو
پہلے یہ شرط مصور سے وہ کر لیتے ہیں
بانکی صورت بھی کھنچے ہاتھ میں شمشیر بھی ہو
کوئی نادان ہوں یاروں کے کہے میں آؤں ؟
جس کو تدبیر بتاتے ہیں وہ تدبیر بھی ہو
کاش وہ محفل ِاغیار میں اے جذبۂ دل
میری تعظیم بھی دے ، مجھ سے بغل گیر بھی ہو
لڑ پڑے غیر سے کیا خیر ہے کیسا ہے مزاج
تم جو چُپ چُپ بھی ہو ، مضطر بھی ہو، دلگیر بھی ہو
گو ہے شوخی وہ اثر دیدۂ نرگس میں کہاں
اُس کی آنکھوں کی طرح سرمۂ تسخیر بھی ہو
تم نمک خوار ہوئے شاہِ دکن کے اے داغؔ
اب خدا چاہے تو منصب بھی ہو ، جاگیر بھی ہو
Be First to Comment