ضرر رساں ہوں بہت، آشنا ہوں میں خود سے
تبھی تو فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوں میں خود سے
سلام! کون؟ کہیں مل چکے ہیں کیا پہلے؟
ہزار بار یہ سب کہہ چکا ہوں میں خود سے
جھگڑتے وقت ذرا بھی لحاظ رکھتا نہیں
اگرچہ عمر میں کافی بڑا ہوں میں خود سے
مجھے ملی ہے گزشتہ برس کی اک تصویر
کہیں کہیں سے بہت مل رہا ہوں میں خود سے
جو درمیان سے تم ہٹ گئے تو ایک گیا
تمہاری سوچ ہے، جتنا خفا ہوں میں خود سے
سوال لکھ کے یہاں رکھ دو اور تم جاؤ
یہ کام کر لوں تو پھر پوچھتا ہوں میں خود سے
کہاں تلاش کروں؟ کیا کہوں کسی سے، عمیر!
کہ آتے جاتے کہیں گر گیا ہوں میں خود سے؟
عمیر نجمی
Be First to Comment