شیشہ ہو یا دل ہو آخر، ٹوٹ جاتا ہے
لب تک آتے آتے ہاتھوں سے ساغر چھوٹ جاتا ہے
کافی بس ارمان نہیں، کچھ ملنا آسان نہیں
دنیا کی مجبوری ہے، پھر تقدیر ضروری ہے
یہ جو دشمن ہیں ایسے، دونوں راضی ہوں کیسے
ایک کو مناؤں تو دوجا، روٹھ جاتا ہے
بیٹھے تھے کنارے پہ موجوں کے اشارے پہ
ہم کھیلے طوفانوں سے، اس دل کے ارمانوں سے
ہم کو یہ معلوم نہ تھا کوئی ساتھ نہیں دیتا
ماجھی چھوڑ جاتا ہے ساحل چھوٹ جاتا ہے
دنیا ایک تماشا ہے، آشا اور نراشا ہے
تھوڑے پھول ہیں کانٹے ہیں جو تقدیر نے بانٹے ہیں
اپنا اپنا حصہ ہے، اپنا اپنا قصہ ہے
کوئی لُٹ جاتا ہے، کوئی لوٹ جاتا ہے
کیفی اعظمی
Be First to Comment