Skip to content

جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے

جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے
تو بھی مری مشکل ہے مرا حل تو نہیں ہے

منزل ہو، اجالے ہوں، بہاریں ہوں کہ ہو تم
یاں کوئی کسی کا بھی مسلسل تو نہیں ہے

خود تیری نظر سے بھی تجھے دیکھا ہے دنیا
تصویر کا وہ رخ بھی مکمل تو نہیں ہے

کرتا ہوں رفو روز گریبان میں اپنا
ہر شخص ترے شہر کا پاگل تو نہیں ہے

ہر روز جھڑی لگتی ہے موسم ہو کوئی بھی
ساون کا مری آنکھ یہ بادل تو نہیں ہے

دل محفلِ یاراں میں بھی دھڑکے نہ مرا اب
اس جا بھی وہی دھڑکا یہ مقتل تو نہیں ہے

اک عمر دلاسہ تھا کہ آنی ہے کوئی کل
آئی ہے تو خدشہ ہے یہ وہ کل تو نہیں ہے

بستی نے مجھے ایسا ڈرایا ہے کہ ڈر ہے
اب پھر سے ٹھکانہ مرا جنگل تو نہیں ہے

جاتے ہیں جہاں سے تو سکوں اتنا ہے ابرک
بن میرے کوئی سانس معطل تو نہیں ہے

اتباف ابرک

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: