Skip to content

اُس زخمِ جاں کے نام ، جو اب تک نہیں بھرا

اُس زخمِ جاں کے نام ، جو اب تک نہیں بھرا
اُس زندہ دل کے نام ، جو اب تک نہیں مَرا

اُن اہلِ دل کے نام ، جو راہوں کی دُھول ہیں
اُن حوصلوں کے نام ، جنہیں دُکھ قبول ہیں

اُس زندگی کے نام ، گزارا نہیں جِسے
اُس قرضِ فن کے نام ، اُتارا نہیں جِسے

اُن دوستوں کے نام ، جو گوشہ نشین ہیں
اُن بے حِسوں کے نام ، جو بارِ زمین ہیں

اُن بے دلوں کے نام ، جو ہر دم ملُول ہیں
اُن بے بسوں کے نام ، جو گملوں کے پھول ہیں

اُس شعلہ رُخ کے نام ، روشن ہے جس سے رات
ہے ضُوفشاں اندھیرے میں ، ہر نقطۂِ کتاب

اُس حسنِ باکمال کی رعنائيوں کے نام
اور اپنے ذہن و قلب کی تنہائيوں کے نام

(اعتبار ساجد)

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: