Skip to content

Tag: Allama Iqbal

Allama Iqbal

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے

واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے

تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے

مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے

لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے

شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے

ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے

سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے

شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم
شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے

واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے

Leave a Comment

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِفرنگیانہ

تعمیرِ آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ

یہ بندگی خدائی ، وہ بندگی گدائی
یا بندہ خدا بن یا بندہ زمانہ

غافل نہ ہو خودی سے ، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ

اے لا الہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ ، کردار قاہرانہ

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ

رازِ حرم سے شاید اقبال باخبر ہے
ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ

Leave a Comment

یہ گنبد مینائی، یہ عالم تنہائی

یہ گنبد مینائی، یہ عالم تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی

بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالہء صحرائی

خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلہء سینائی، میں شعلہء سینائی

تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہء پیدائی، اک لذت یکتائی

غواص محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرئہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

ہے گرمی آدم سے ہنگامہء عالم گرم
سورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی

اے باد بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی

Leave a Comment

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکُوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دَور ساقی کہ چھُپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے‌خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

کبھی جو آوارۂ جُنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا

سُنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

کِیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیرِ میخانہ سُن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

سفینۂ برگِ گُل بنا لے گا قافلہ مُورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا

چمن میں لالہ دِکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دِکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا

جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا

کہا جو قُمری سے مَیں نے اک دن، یہاں کے آزاد پا بہ گِل ہیں
تو غُنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

یہ رسمِ بزمِ فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبشِ نظر بھی
رہے گی کیا آبرُو ہماری جو تُو یہاں بے قرار ہو گا

میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدّعا تیری زندگی کا
تو اک نفَس میں جہاں سے مِٹنا تجھے مثالِ شرار ہو گا

نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی
کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا

Leave a Comment

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن

پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے ، نیلے نیلے ، پیلے پیلے پیرہن

برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن

حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن

من کی دنیا ! من کی دنیا سوز و مستی ، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سود و سودا ، مکروفن

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرا نہ تن

Leave a Comment

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِرگِ سنگ

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِرگِ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک

محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک

آزاد کی دولت دل روشن، نفس گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک

محکوم ہے بیگانہء اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجہ افلاک

Leave a Comment

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر

احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول سوز و تب و تاب آخر

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر

مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر

کیا دبدبۂ نادر کیا شوکت تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر

خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر

تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

علامہ اقبال

Leave a Comment

نقطۂ نوری کہ نام او خودی است

نقطۂ نوری کہ نام او خودی است
زیر خاک ما شرار زندگی است

از محبت می شود پایندہ تر
زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر

از محبت اشتعال جوہرش
ارتقای ممکنات مضمرش

فطرت او آتش اندوزد ز عشق
عالم افروزی بیاموزد ز عشق

عشق را از تیغ و خنجر باک نیست
اصل عشق از آب و باد و خاک نیست

در جہان ہم صلح و ہم پیکار عشق
آب حیوان تیغ جوہر دار عشق

از نگاہ عشق خارا شق شود
عشق حق آخر سراپا حق شود

عاشقی آموز و محبوبی طلب
چشم نوحی قلب ایوبی طلب

کیمیا پیدا کن از مشت گلی
بوسہ زن بر آستان کاملی

شمع خود را ہمچو رومی بر فروز
روم را در آتش تبریز سوز

Leave a Comment

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں

گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ
گہرمیں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں

رگوں میں گردش خوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں

عروس لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں

جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شۓ متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں

بڑا کریم ہے اقبال بے نوا لیکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہی

Leave a Comment

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
 مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

 ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
 کوئی بات صبرآزما چاہتا ہوں

 یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
 کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

 ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
 وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں

 کوئی دَم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
 چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں

 بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
 بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں

Leave a Comment
%d bloggers like this: