Skip to content

The Poet Place Posts

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے

اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گے
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے

رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے

بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے

پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے

تیز بارش ہو ، گھنا پیڑ ہو ، اِک لڑکی ہو
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے

روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال
چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے

پروین شاکر

Leave a Comment

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی​

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی​
اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی​

دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر​
کوئی برسات کی جھڑی ہو گی​

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی​
پھول کی ایک پنکھڑی ہو گی​

زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر​
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی​

اے عدم کے مسافرو ہشیار​
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی​

کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے​
جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی​

التجا کا ملال کیا کیجے​
ان کے در پر کہیں پڑی ہو گی​

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر​
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی​


​ ساغر صدیقی

Leave a Comment

یہ تُو جو پوچھتا پھرتا ہے ، بے دِلی ہے کیا؟

یہ تُو جو پوچھتا پھرتا ہے ، بے دِلی ہے کیا؟
تو پہلے یہ تو پتہ کر کہ دِل لگی ہے کیا

ہم اہلِ دِل جو محبت کا ساتھ دیتے ہیں
ہماری خوبی تمھیں عیب لگ رہی ہے کیا؟

قصور وار نہیں ہیں دِیے بُجھاتے لوگ
اِنھیں خبر ہی نہیں ہے کہ روشنی ہے کیا؟

بڑے غرور سے لوگوں سے بات کرتے ہو
تمھارے ہاتھ میں دولت نئی نئی ہے کیا؟

ہے رخ پہ گرد اور آئینہ صاف کرتے ہیں
اب اس سے بڑھ کے بتاؤ کہ “سادگی ہے کیا؟

گزشتہ سات برس سے ہوں لاپتہ خود سے
میری کہیں سے کوئی بھی خبر مِلی ہے کیا؟

میں ایک نظم لِکھوں گا تمھارے ہونٹوں پر
یہ قارئین بھی سمجھیں کہ “تازگی ہے کیا”

تیری نظر میں جو دنیا وسیع ہے ساحر
یہ کائنات تیری سوچ سے بڑی ہے کیا؟

Leave a Comment

قلم ، کاغذ ، تخیل اور کتابیں بیچ سکتی ہوں

قلم ، کاغذ ، تخیل اور کتابیں بیچ سکتی ہوں
پڑی مشکل تو گھر کی ساری چیزیں بیچ سکتی ہوں

مجھے قسطوں میں اپنی زندگی نیلام کرنی ہے
میں بھر بھر کے غباروں میں یہ سانسیں بیچ سکتی ہوں

پرندوں سے مرا جھگڑا ہے ، ان کے گھر اجاڑوں گی
اگر یہ پیڑ میرا ہے میں شاخیں بیچ سکتی ہوں

مرے کاسے میں بھی خیرات پڑ جائے محبت کی
سنو درویش کیا میں بھی دعائیں بیچ سکتی ہوں ؟

تمہارے بعد اب کس کو بصارت کی طلب ہوگی ؟
مناسب دام مل جائیں تو آنکھیں بیچ سکتی ہوں

بتائیں مفتیانِ علم و دانش میرے بچوں پر
اگر فاقہ مسلط ہو ، میں غزلیں بیچ سکتی ہوں ؟

کومل جوئیہ

Leave a Comment

وہی گردشیں وہی پیچ و خم ترے بعد بھی

وہی گردشیں وہی پیچ و خم ترے بعد بھی
وہی حوصلے مرے دم بدم ترے بعد بھی

ترے ساتھ تھی تری ہر جفا مجھے معتبر
تیرے سارے غم مجھے محترم ترے بعد بھی

ترے غم سے ہے مری ہر خوشی میں وقار سا
مرے حال پر ہیں ترے کرم ترے بعد بھی

بڑے مضطرب مرے راستے ترے بعد، پر
بڑے پُرسکوں ہیں مرے قدم ترے بعد بھی

تیرے ساتھ ہے میری ہر خوشی تیری منتظر
تیری منتظر مری چشمِ نم ترے بعد بھی

ترے ساتھ تھی مری دسترس میں جو روشنی
فقط ایک پل کبھی صبح دم ترے بعد بھی

تجھے جانِ غم جو کہا کبھی تو غلط کہا
مری زندگی کے جواں ہیں غم ترے بعد بھی

تجھے پاسِ عہدِ وفا رہا مرے پاس کب
مجھے جاں سے بڑھ کے ترا بھرم ترے بعد بھی

مرے بعد کتنے ہی رُوپ تُو نے بدل لیے
میں وہی ہوں اب بھی تری قسم ترے بعد بھی

تُو کسی کے قالبِ آرزو میں تو ڈھل گیا
میں نہ ہو سکا کبھی خود میں ضم ترے بعد بھی

یہی عشق تھا مری زندگی ترے پیشتر
یہی عاشقی، مِرا دهرم ! ترے بعد بھی

تری آہٹوں کا گداز تھا مرا ہم سفر
یہی اِک گماں مرا ہم قدم ترے بعد بھی

تُو چلا گیا سبھی قہقہوں کو سمیٹ کر
مرے پاس ہے مرا ظرفِ غم ترے بعد بھی

Leave a Comment

خوُشی کا غم ہے نہ غم کی کوئی خوُشی اب تو

خوُشی کا غم ہے نہ غم کی کوئی خوُشی اب تو
بہت اُداس گُزرتی ہے زندگی اب تو

تِرے بغیر بھی دل کی تسلیوں کے لیے
اِک اِنتظار کی شب تھی، سو ڈھل چُکی اب تو

اِک آشنا کے بچھڑنے سے کیا نہیں بدلا؟
ہَوائے شہر بھی لگتی ہے اجنبی اب تو

تمام رات رہی دل میں روشنی کی لکیر
مثالِ شمعِ سَحر، وہ بھی جَل بُجھی اب تو

چَلی تھی جن سے یہاں رسمِ خوُدنگہداری
اُنہیں عزیز ہُوا ذکرِ خوُدکشی اب تو

کہاں گئے وہ شناسا وہ اجنبی چہرے!
اُجاڑ سی نظر آتی ہے ہر گلی اب تو

محسن نقوی

Leave a Comment

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں

ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں

اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں

جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں

حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

جس برہمن نے کہا ہےکہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں

وہ خدا ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہو گا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈو نہ کلیساؤں میں

ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں

مجھ سے کرتے ہیں قتیلؔ اس لئے کچھ لوگ حسد
کیوں مرے شعر ہیں مقبول حسیناؤں میں

Leave a Comment

جب تم سے اتفاقا میری نظر ملی تھی

جب تم سے اتفاقا میری نظر ملی تھی
اب یاد آ رہا ہے شاید وہ جنوری تھی

تم یوں ملی دوبارہ پھر ماہِ فروری میں
جیسے کہ ہمسفر ہو تم راہِ زندگی میں

کتنا حسِین زمانہ آیا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھی تم وعدوں کی ٹارچ لے کر

باندھا جو عہدِ الفت اپریل چل رہا تھا
دنیا بدل رہی تھی موسم بدل رہا تھا

لیکن مئی جب آئی جلنے لگا زمانہ
ہر شخص کی زباں پہ تھا بس یہی افسانہ

دنیا کے ڈر سے تم نے جب پھیری تھی نگاہیں
تھا جون کا مہینہ لب پہ تھی گرم آہیں

جولائی میں تم نے کی بات چیت کچھ کم
تھے آسمان پہ بادل اور میری آنکھیں پرنم

ماہِ اگست میں جب برسات ہو رہی تھی
تب آنسوؤں کی بارش دن رات ہو رہی تھی

اب یاد آ رہا ہے وہ ماہ تھا ستمبر
بھیجا تھا تم نے مجھ کوترکِ وفا کا لیٹر

تم غیر ہو گئی تھی اکتوبر آ گیا تھا
دنیا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا

جب آ گیا نومبر وہ بھیگی رات آئی
مجھ سے تمہیں چھڑانے سج کر بارات آئی

اک قید تھا دسمبر جذبات مر چکے تھے
موسم تھا سرد اس میں ارمان بکھر چکے تھے

Leave a Comment

تیز آندھیوں میں اُڑتے پَر و بال کی طرح

تیز آندھیوں میں اُڑتے پَر و بال کی طرح
ہر شے گزشتنی ہے مَہ و سال کی طرح

کیوں کر کہوں کہ درپئے آزار ہے وہی
جو آسماں ہے سَر پہ مِرے ڈھال کی طرح

یوں بے سبب تو کوئی انہیں پوجتا نہیں
کچھ تو ہے پتھروں میں خدوخال کی طرح

کیا کچھ کیا نہ خود کو چھپانے کے واسطے
عریانیوں کو اوڑھ لیا شال کی طرح

اب تک مِرا زمین سے رشتہ ہے استوار
رہنِ ستم ہوں سبزۂِ پامال کی طرح

میں خود ہی جلوہ ریز ہوں، خود ہی نگاہِ شوق
شفّاف پانیوں پہ جھکی ڈال کی طرح

ہر موڑ پر ملیں گے کئی راہ زن شکیبؔ
چلیے چھپا کے غم بھی زَر و مال کی طرح

شکیب جلالی

Leave a Comment

تیرے گاؤں کی خیر ہو آمین

تیرے گاؤں کی خیر ہو آمین
تیری راہوں کی خیر ہو آمین

جن نگاہوں نے تجھکو دیکھا ہو
ان نگاہوں کی خیر ہو آمین

جن صداؤں کو تیرے کان سنیں
ان صداؤں کی خیر ہو آمین

جن ہواؤں کو تیرا لمس ملے
ان ہواؤں کی خیر ہو آمین

جن گداؤں کو تیری بھیک ملے
ان گداؤں کی خیر ہو آمین

جن دعاؤں میں تیرا نام بسے
ان دعاؤں کی خیر ہو آمین

جن گناہوں کو تیرا دل چاہے
ان گناہوں کی خیر ہو آمین

تیرے ہاتھوں سے روشنی پھوٹے
نرم بانہوں کی خیر ہو آمین

جن فضاؤں میں تیری خوشبو ہو
ان فضاؤں کی خیر ہو آمین

Leave a Comment
%d bloggers like this: