Skip to content

The Poet Place Posts

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ
ﺍﻥ ﮐﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﮐﮫ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺻﻔﺤﺌﮧ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﻮ ﭘﻠﭩﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ
ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺬﻭﺭ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺳﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺧﻂ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﮔﯽ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﺗﻢ ﺍﮔﺮﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺳﺮﺩ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﮩﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻨﺎﭨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺁﺝ ﺗﻮ ﻣﺤﻔﻞ ﯾﺎﺭﺍﮞ ﭘﮧ ﮨﻮ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﺑﮩﺖ
ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ﺑﮑﮭﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺮﺍ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻮﻧﭽﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺷﺎﻝ ﭘﮩﻨﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯿﮕﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺣﺎﺩﺛﮯ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﻮ ﮐﮯ ﻧﮉﮬﺎﻝ
ﮐﺴﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺗﮭﺎﻣﻮ ﮔﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺨﺖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺑﮭﯽ
ﺗﻢ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﻧﮓ ﺟﻮ ﭘﮩﻨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

وصی شاہ

Leave a Comment

پاؤں کا دھیان تو ہے راہ کا ڈر کوئی نہیں

پاؤں کا دھیان تو ہے راہ کا ڈر کوئی نہیں
مجھ کو لگتا ہے مرا زادِ سفر کوئی نہیں

بعض اوقات تو میں خود پہ بہت چیختا ہوں
چیختا ہوں کہ اُدھر جاؤ جدھر کوئی نہیں

سر پہ دیوار کا سایا بھی اُداسی ہے مجھے
ظاہراً ایسی اداسی کا اثر کوئی نہیں

آخری بار مجھے کھینچ کے سینے سے لگا
اور پھر دیکھ مجھے موت کا ڈر کوئی نہیں

خودکشی کرتے سمے پوچھتا ہوں میرا عزیز؟
اور آواز سی آتی ہے تُو مَر ! کوئی نہیں

بھری دنیا ہے سسکنے میں جھجک ہو گی تمہیں
یہ مرا دل ہے ادھر رو لو ادھر کوئی نہیں

ایک دن لوگ مجھے تخت نشیں دیکھیں گے
یا یہ دیکھیں گے مرا جسم ہے سَر کوئی نہیں

اُس کی ہجرت بڑا اعصاب شکن سانحہ تھی
شہر تو شہر ہے جنگل میں شجر کوئی نہیں

صبح سے رات کی مایوسی بھگانے کا سبب
کوئی تو ہوتا مرے دوست مگر کوئی نہیں

بے خیالی سی مجھے گود میں بھر لیتی ہے
در پہ دستک ہو تو کہہ دیتا ہوں گھر کوئی نہیں

Leave a Comment

آؤ آج تمھیں اک کہانی سناتا ہوں میں

آؤ آج تمھیں اک کہانی سناتا ہوں میں
قصہ دلِ برباد کا اپنی زبانی سناتا ہوں میں

سرِ بزم جو کبھی کوئ پکارے نام اُسکا
بےساختہ سا کلیجہ اپنا تھام لیتا ہوں میں

وہ جو دن کو کہہ دیتی ہے رات کبھی
اعتبار دیکھو، رات مان کے سو جاتا ہوں میں

اُسکے لمس کی شدتوں کا مارا۔۔۔ہر روز
اُسکی تصویر سینے سے لگا کے رو جاتا ہوں میں

جانتا ہوں وہ دلنشیں آنکھیں بےوفا ہیں مگر
پھر بھی اُن میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں میں

وہ کہتی ہے میرے عشق میں تم مارے جاؤ گے
جنوں دیکھو۔۔۔کہ مرنے پہ تُلا جاتا ہوں میں

وہ جن لمحوں میں میرے ساتھ ہوتی ہے
بس اُنہی لمحوں میں جیا جاتا ہوں میں

کہنے کو بہت ہیں مہ جبینیں جہاں میں
اک اُسی سادہ سے خدوخال پہ لُٹا جاتا ہوں میں

وہ اک شام کہ جب اُس نے کہا تھا مجھے اپنا
بس وہی اک بات بار بار سُننا چاہتا ہوں میں

میرا سَر اپنی گود میں رکھ کے میرے بالوں سے کھیلنا
کبھی یوں بھی پیار سے سہلایا جاتا ہوں میں

تیرے ہونے سے میری جان، جان میں جان تھی
اب تو یوں سمجھو بےجان سا ہوا جاتا ہوں میں

اکثر راتوں میں تنہائ سے عاجز آ کر
بہت دیر تک تجھے ہی سوچتا چلا جاتا ہوں میں

تم تھی تو گویا پوری کائنات تھی مٹھی میں میری
اب تو اے جاں، بہت اکیلا سا ہوا جاتا ہوں میں

عجب ہے یہ رمزِ عشق بھی جاناں
تو جتنا دور جاۓ اُتنا قریب ہوا جاتا ہوں میں

جو ہستے ہوۓ تھکتا نا تھا اب بولتا بھی نہیں
دیکھ تو زرا۔۔۔کیا سے کیا ہوا جاتا ہوں میں

تیری عادتیں اپنا لی ہیں، تیری باتیں دوہراتا ہوں
کہ اب تو ہوباہو “تم” ہوا جاتا ہوں میں

اکثر عالمِ تنہائ میں تُجھے تصَور میں لا کر
تجھ سے پہروں باتیں کیا جاتا ہوں میں

میری دیوانگی کی حد سے تو انجان ہے اب تک
کہ حد میں رہ کر۔۔۔بےحد تجھے چاہتا ہوں میں

تو اکثر پوچھتی تھی نا بچھڑے تو کیا ہو گا میرا
آ زرا دیکھ تو صحیح کتنا برباد ہوا جاتا ہوں میں

میرا سفر تیرے لیۓ، میری منزل بھی فقط تو تھی
تجھ سے شروع ہوتا ہوں تجھ پہ ہی ختم ہوا جاتا ہوں میں

یہ دل تیرے نام پہ دھڑکتا، یہ سانسیں تجھ سے چلتی ہیں
تم بن تو جیسے کوئ زندہ لاش ہوا جاتا ہوں میں

اک ادھوری سی بات ہے جسے مکمل کرنے کے واسطے
جانے کتنے برسوں سے تیرا منتظر ہوا جاتا ہوں میں

دیکھ کیسے نکھر نکھر کے بگڑا ہوں تیرے عشق میں
کسی سے جو ملوں تو تیرے بارے ہی پوچھتا جاتا ہوں میں

سُنا ہے تیری محبت نے بخشا ہے میرے الفاظ کو درد گہرا
لوگ کہتے ہیں کہ۔۔۔شاعر ہوا جاتا ہوں میں

کبھی موقع ملا تو سُناؤں گا تجھے اپنی وہ اک غزل بھی
جس میں لفظ با لفظ، تن با تن، سانس در سانس تیرے نام کیئے جاتا ہوں میں

Leave a Comment

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں
بے رخی کو بھی جو سمجھے تیرا احساں جاناں

جب بھی کرتی ہے میرے دل کو پریشاں دنیا
یاد آتی ہے تیری زلفِ پریشاں جاناں

میں تیری پہلی نظر کو نہیں بھولا اب تک
آج بھی دل میں ہے پیوست وہ پیکاں جاناں

مجھ سے باندھے تھے بنا کر جو ستاروں کو گواہ
کر دیے تو نے فراموش وہ پیماں جاناں

کبھی آتے ہوئے دیکھوں تجھے اپنے گھر میں
کاش پورا ہو میرے دل کا یہ ارماں جاناں

اک مسافر کو تیرے شہر میں موت آئی ہے
شہر سے دور نہیں گورِ غریباں جاناں

یہ تیرا حسن یہ بے خود سی ادائیں تیری
کون رە سکتا ہے ایسے میں مسلماں جاناں

کیوں تجھے ٹوٹ کے چاہے نہ خدائی ساری
کون ہے تیرے سوا یوسفِؑ دوراں جاناں؟

جاں بلب، خاک بسر، آہ بہ دل، خانہ بدوش
مجھ سا کوئی بھی نہ ہو بے سر و ساماں جاناں

یہ تو پوچھ اس سے جس پر یہ بلا گزری ہے
کیا خبر تجھ کو کہ کیا ہے شبِ ہجراں جاناں

یہ وە نسبت ہے جو ٹوٹی ہے نہ ٹوٹے گی کبھی
میں تیرا خاک نشیں، تو میرا سلطاں جاناں

وە تو اک تمہارا ساتھ تھا کہ آڑے آیا
ورنہ دھر لیتی مجھے گردشِ دوراں جاناں

کیا تماشہ ہو کہ خاموش کھڑی ہو دنیا
میں چلوں حشر میں کہتے ہوئے جاناں جاناں

در پہ حاضر ہے ترے آج نصیرِؔ عاصی
تیرا مجرم تیرا شرمندۂ احساں جاناں

سید نصیر الدین نصیرؔ

Leave a Comment

جہان بھر میں کسی چیز کو دوام ھے کیا ؟

جہان بھر میں کسی چیز کو دوام ھے کیا ؟
اگر نہیں ھے تو سب کچھ خیالِ خام ھے کیا ؟

اُداسیاں چلی آتی ھیں شام ڈھلتے ھی
ھمارا دل کوئی تفریح کا مقام ھے کیا ؟

وھی ھو تُم جو بُلانے پہ بھی نہ آتے تھے
بِنا بُلائے چلے آئے ! کوئی کام ھے کیا ؟

جواباً آئی بڑی تیز سی مہک مُنہ سے
سوال یہ تھا کہ مولانا ! مَے حرام ھے کیا ؟

بتا رھے ھو کہ رسمی دُعا سلام ھے بس
دُعا سلام کا مطلب دُعا سلام ھے کیا ؟

تو کیا وھاں سے بھی اب ھر کوئی گذرتا ھے ؟
وہ راہِ خاص بھی اب شاھراہِ عام ھے کیا ؟

مَیں پُوچھ بیٹھا: تُمہیں یاد ھے ھمارا عشق ؟
جواب آیا کہ تُو کون ؟ تیرا نام ھے کیا ؟

اک ایک کرکے سبھی یار اُٹھتے جاتے ھیں
درُونِ خانہ کوئی اور انتظام ھے کیا ؟

بری کرانا ھے ابلیس کو کسی صُورت
خُدا کے گھر میں کسی سے دُعا سلام ھے کیا ؟

جواب آیا کہ فرفر سُناؤں ؟ یاد ھے سب
سوال یہ تھا کہ یہ آپ کا کلام ھے کیا ؟

تُو بے وفائی کرے اور پھر یہ حُکم بھی دے
کہ بس ترا رھے فارس، ترا غُلام ھے کیا ؟

رحمان فارس

Leave a Comment

میں نعرۂ مستانہ

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی
ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا

میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ

میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ

واصف علی واصفؔ

Leave a Comment

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں

کیسے خوش طبع ہیں اس شہر دل آزار کے لوگ
موج خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں

اہل دنیا کا تو کیا ذکر کہ دیوانوں کو
صاحبان دل شوریدہ بھی کب پوچھتے ہیں

خاک اڑاتی ہوئی راتیں ہوں کہ بھیگے ہوئے دن
اول صبح کے غم آخر شب پوچھتے ہیں

ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں

یہی مجبور یہی مہر بہ لب بے آواز
پوچھنے پر کبھی آئیں تو غضب پوچھتے ہیں

کرم مسند و منبر کہ اب ارباب حکم
ظلم کر چکتے ہیں تب مرضیٔ رب پوچھتے ہیں

افتخار عارف

Leave a Comment

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن

ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن
جیسے تم ہو کوئی قسمت کا ستارا محسن
اب تو خود کو بھی نکھارا نہیں جاتا ہم سے
وہ بھی کیا دن تھے کہ تجھ کو بھی سنوارا محسن
اپنے خوابوں کو اندھیروں کے حوالے کر کے
ہم نے صدقہ تیری آنکھوں کا اتارا محسن
ہم کو معلوم ہے اب لوٹ کے آنا تیرا
نہیں ممکن یہ مگر پھر بھی خدارا محسن
ہم تو رخصت کی گھڑی کو بھی نہ سمجھے محسن
سانس دیتی رہی ہجرت کا اشارہ محسن
اس نے جب جب بھی مجھے دل سے پکارا محسن
میں نے تب تب یہ بتایا کے تمہارا محسن
لوگ صدیوں کے خطائوں پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
ہو گیا جب یہ یقین اب وہ نہیں آئے گا
آنسو اور غم نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اسکو پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اسکو کھونا بھی کریں کیسے گوارہ محسن

محسن نقوی

Leave a Comment

خوشبوؤں کے کنول جلاؤں گا

خوشبوؤں کے کنول جلاؤں گا
سیج تو چاند پر سجاؤں گا

تُو شریکِ حیات بن جائے
پیار کی مملکت بناؤں گا

تھام لے ہاتھ میرا وعدہ ہے
تیری پازیب تک دَباؤں گا

تُو کرم ماں کے بھول جائے گی
میں ترے اِتنے ناز اُٹھاؤں گا

تیرے گُل رُخ کی تازگی کے لیے
شبنمی گیت گنگناؤں گا

خانقاہوں کے بعد تیرے لیے
مندروں میں دِئیے جلاؤں گا

مانگ تیری دَرخشاں رَکھنے کو
کہکشائیں بھی توڑ لاؤں گا

دِل کی رانی ہے ، نوکرانی نہیں
اَپنے گھر والوں کو بتاؤں گا

تیرے گھر والے روز آئیں گے
اُن سے یوں رابطہ بڑھاؤں گا

گھر سے میں سیدھا جاؤں گا دَفتر
اور دَفتر سے گھر ہی آؤں گا

یاروں کے طعنے بے اَثر ہوں گے
میں ترے ساتھ کھانا کھاؤں گا

چاندنی شب میں من پسند غذا
لقمہ لقمہ تجھے کھِلاؤں گا

کاسۂ آب پہلے دُوں گا تجھے
پیاس میں بعد میں بجھاؤں گا

بھول جائے گی گھر کی اُکتاہٹ
شب تجھے اِس قَدَر گھماؤں گا

ویسے بھر آئے دِل تو رو لینا
سوچ بھی نہ کہ میں ستاؤں گا

گر خطا تجھ سے کوئی ہو بھی گئی
دیکھ کر صرف مسکراؤں گا

چند لمحے خفا ہُوئے بھی اَگر
وعدہ ہے پہلے میں مناؤں گا

رات بارہ بجے تُو سوئے اَگر
دِن کے بارہ بجے جگاؤں گا

Leave a Comment

غموں کی دُھول میں شاید بکھر گیا ہو گا

غموں کی دُھول میں شاید بکھر گیا ہو گا
بچھڑ کے مجھ سے وہ جانے کدھر گیا ہو گا

وہاں وہاں مری خشبو بکھر گئی ہو گی
جہاں جہاں بھی مرا ہم سفر گیا ہو گا

میں اُس کے ہجر میں کتنا اُداس رہتا ہوں
یہ سن کے اُس کا بھی چہرہ اُتر گیا ہو گا

یہ کس نے خواب میں آکر جگا دیا مجھ کو
مجھے یقیں ہے وہ سوتے میں ڈر گیا ہو گا

خوشی کی دھوپ نے سنولا دیا تھا رنگ اُس کا
اُداس ہو کے وہ کتنا نکھر گیا ہو گا

نکل پڑا تھا سرِ شام چاند کی صورت
مری تلاش میں وہ تا سحر گیا ہو گا

جو مرے دل کو قفس میں بدل گیا جرارؔ
وہ اپنے گھر کو بھی ویران کر گیا ہو گا

Leave a Comment
%d bloggers like this: