Skip to content

The Poet Place Posts

ﺍﮮ ﯾﺎﺩِ ﯾﺎﺭ

ﺍﮮ ﯾﺎﺩِ ﯾﺎﺭ ، تجھ ﺳﮯ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﺎ ﺷﮑﺎیتیں ؟؟
ﺍﮮ ﺩﺭﺩِ ھﺠﺮ ، ھﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﮯ ھﻮ ﮔﺌﮯ
سمجھا رھے تھے مجھ کو ، سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ ، خود اُسی کافر کے ھو گئے​

Leave a Comment

غیر کے نام سے پیغامِ وصال اچھا ہے

غیر کے نام سے پیغامِ وصال اچھا ہے
چھیڑ کا جس میں مزا ہو وہ سوال اچھا ہے
کبھی کہتا ہوں محبّت کا مآل اچھا ہے
کبھی کہتا ہوں جو اب ہے وہی حال اچھا ہے
یہ بھی کہتے ہو کہ بے چین کیا کس نے تجھے
یہ بھی کہتے ہو مرا حسن و جمال اچھا ہے
دل تو ہم دیں گے مگر پیشتر اتنا کہہ دو
ہجر اچھا ہے تمہارا کہ وصال اچھا ہے
یہ تو بہتر ہے کہ دنیا میں ہو عقبیٰ کا خیال
کچھ تو عقبیٰ میں دنیا کا مال اچھا ہے
یہی دولت کا مزا ہے کے اڑیں گل چھرے
ہاتھ آتے ہی جو اڑ جائے وہ مال اچھا ہے
صلح دشمن سے بھی کر لیں گے تری خاطر سے
جس طرح سے ہو غرض رفعِ ملال اچھا ہے
اک دکاں میں ابھی رکھ آئے ہیں ہم اپنا دل
دور سے سب کو بتاتے ہیں وہ مال اچھا ہے
کیا وہ غارت گر دیں حشر سے اڑ جائے گا
ہر مسلماں کا سنتے ہیں مآل اچھا ہے
روزِ بد سے نہیں تا عمر محبّت میں نجات
موت سے سال میں آئے وہی سال اچھا ہے
اپنی تعریف سے چڑھتے ہو اگر جانے دو
چشمِ بد دور ہمارا ہی جمال اچھا ہے
لوگ کہتے ہیں بھلائی کا زمانہ نہ رہا
یہ بھی کہہ دیں کہ برائی کا مآل اچھا ہے
رقمِ شوق کی تاثیر اڑنا بہتر
طائرِ نامہ رسا بے پر و بال اچھا ہے
ایسے بیمار کی افسوس دوا ہو کیونکر
ابھی دم بھر میں برا ہے ابھی حال اچھا ہے
دیکھنے والوں کی حالت نہیں دیکھی جاتی
جو نہ دیکھے وہی مشتاقِ جمال اچھا ہے
یا دکھا دو مجھے تم پاؤں کا ناخن اپنا
یا یہ کہہ دو مرے ناخن سے ہلال اچھا ہے
تم نہیں اور سہی دل کے طلب گار بہت
سو خریدار ہیں موجود جو مال اچھا ہے
دل میں تو خوش ہیں تسلی کو مری کہتے ہیں
آپ مرنے کے نہیں آپ کا حال اچھا ہے
باغِ عالم میں کوئی خاک پھلے پھولے گا
برق گرتی ہے اسی پر جو نہال اچھا ہے
عرصہ حشر میں سب ہو گئے خواہاں اس کے
لوگ کہتے ہیں اشاروں سے یہ مال اچھا ہے
ہم سے پوچھے کوئی دنیا میں ہے کیا شے اچھی
رنج اچھا ہے غم اچھا ہے ملال اچھا ہے
آپ پچھتاہیں نہیں جور سے توبہ نہ کریں
آپ گھبراہیں نہیں داغؔ کا حال اچھا ہے
داغؔ دہلوی

Leave a Comment

زخم اکتا کے کئی بار ہیں رونا بھولے

زخم اکتا کے کئی بار ہیں رونا بھولے
دنیا، دنیا ہے یہ نشتر نہ چبھونا بھولے

تیرنا ہم کو نہیں آئے گا جب یہ طے ہے
آو منت کریں دریا سے ڈبونا بھولے

ایسے مصروف ہوئے آج سبھی گھر کے مکیں
جہاں رکھا تھا مجھے گھر کا وہ کونا بھولے

ایک سے ایک لبھانے کو ہے بازار میں شے
پھر کوئی کیسے نہیں ٹوٹا کھلونا بھولے

تیرے انداز حسیں، دنیا کہاں لے آئے
تیرے بھی ہو نہ سکے، اپنا بھی ہونا بھولے

گر کبھی چاہا کوئی بات بنا کر لکھنا
لفظ باغی ہوئے شعروں میں سمونا بھولے

توڑا جب جب ہے زمانے نے کوئی خواب مرا
ہم نیا خواب نہ آنکھوں میں پرونا بھولے

یاد جب آتے ہیں وہ لوگ پرانے ابرک
آنکھ ظالم مرا دامن نہ بھگونا بھولے

اتباف ابرک

Leave a Comment

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف دیکھ تیرا جاتا کیا ہے

میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے

پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تیرے
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ اٹھاتا کیا ہے

عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے سائے سے ڈراتا کیا ہے

مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابرِ کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے

میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے

Leave a Comment

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ
چشمِ گریہ میں رھے دل سے نکالے ھوئے لوگ

کب سے راھوں میں تری گرد بنے بیٹھے ھیں
تجھ سے ملنے کیلئے وقت کو ٹالے ھوئے لوگ

کہیں آنکھوں سے چھلکنے نہیں دیتے تجھ کو
کیسے پھرتے ھیں ترے خواب سنبھالے ھوئے لوگ

دامنِ صبح میں گرتے ھوئے تاروں کی طرح
جل رھے ھیں تری قربت کے اجالے ھوئے لوگ

یا تجھے رکھتے ھیں یا پھر تیری خواھش دل میں
ایسے دنیا میں کہاں چاھنے والے ھوئے لوگ

Leave a Comment

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے

عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے

مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے

تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے

وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے

Leave a Comment

اَدائیں حشر جگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

اَدائیں حشر جگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
خیال حرف نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

بہشتی غنچوں سے گوندھا گیا صراحی بدن
گُلاب خوشبو چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے
زَمیں پہ پلکیں بچھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

ذَہین تتلی کو یہ پنکھڑی لگے شاید
لبوں سے تتلی اُڑائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حسین تتلیاں ، پانی میں اُس کو دیکھیں تو
اُکھاڑ پھینکیں قبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ پنکھڑی پہ اَگر چلتے چلتے تھک جائیں
تو پریاں پیر دَبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

قدم ، اِرم میں دَھرے ، خوش قدم تو حور و غلام
چراغ گھی کے جلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

یہ جھاڑو دیتی ہیں پلکوں سے یا حسیں حوریں
قدم کی خاک چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جنہوں نے اُس کی جھلک دیکھی ، حور کا گھونگھٹ
مُحال ہے کہ اُٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

خدا نے اِس لیے اُس کو بہشت سے بھیجا
فرشتے کرتے خطائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جو دیکھ لیں اُسے تو مصر بھر کے شاہی غلام
چھری پہ ہاتھ چلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

غزال قسمیں ستاروں کی دے کے عرض کریں
حُضور! چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ چاند عید کا اُترے جو دِل کے آنگن میں
ہم عید روز منائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

زَمیں پہ خرمنِ جاں رَکھ کے ہوشمند کہیں
بس آپ بجلی گرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

طلسمِ حُسن ہے موجود لفظوں سے اَفضل
لغت جدید بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

خطیب دیکھیں گزرتا تو تھک کے لوگ کہیں
حُضور خطبہ سنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حلال ہوتی ہے ’’پہلی نظر‘‘ تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

شریر مچھلیاں کافِر کی نقل میں دِن بھر
مچل مچل کے نہائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جو شعر جانِ غزل تھا ، وُہ جان کر چھوڑا
کہ آپ مر ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

Leave a Comment
%d bloggers like this: