تم افسانہِ قیس کیا پوچھتے ہو؟
اِدھر آؤ ، ہم تم کو لیلیٰ بنادیں
اختر شیرانی
Leave a Commentعشق ہم سے ہوا ہی نہیں
بس اندھیرا کوئی دیا ہی نہیں
بچھڑ کے کہتے ہو بچپنا چھوڑو
جیسے یہ کوئی سزا ہی نہیں
دشت بھر یوں اداس ترے بعد
فضا میں کوئی ہوا ہی نہیں
نمی آنکھوں سے بہے جاتی ھے
ویسے دل کو کوئی گلہ ہی نہیں
عجب سناٹا ھے بین کرتا ہوا
جیسے اپنا کوئی رہا ہی نہیں
تم بھی جاو گے تو کیا کہوں گا
زمانے تجھ میں زرا وفا ہی نہیں
میں مریض عشق ہوں صاحب
آپ کہہ دو کوئی دوا ہی نہیں
رضی وہ مصروف قتل ہیں ایسے
جیسے بستی میں خدا ہی نہیں
جاری تھی کب سے “کُن” کی صدا ،روک دی گئی
لیکھک کا دل بھرا تو کتھا روک دی گئی
اس نے تو صرف مجھ کو اشارہ کیا کہ رک
ہر چیز اپنی اپنی جگہ روک دی گئی
ہر شب ہوا سے بجتی تھیں سب بند کھڑکیاں
اک شب وہ کھول دیں تو ہوا روک دی گئی
جانے ہیں کتنی چوکیاں، عرشِ بریں تلک.؟
جانے کہاں ہماری دعا روک دی گئی؟
میں لاعلاج ہو گیا ہوں، یوں پتہ چلا
اک دن، بنا بتائے، دوا روک دی گئی
گریے کو ترک کر کے میں خوش باش ہو گیا
غم مر گیا جب اس کی غذا روک دی گئی
میری سزائے موت پہ سب غمزدہ تھے، اور
میں خوش کہ زندگی کی سزا روک دی گئی
عمیر نجمی
پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے
میں خوش نہیں ہوں تجھے خود میں مبتلا کر کے
اصولی طور پہ مر جانا چاہیے تھا مگر
مجھے سکون ملا ہے تجھے جدا کر کے
یہ کیوں کہا کہ تجھے مجھ سے پیار ہو جائے
تڑپ اٹھا ہوں ترے حق میں بد دعا کر کے
میں چاہتا ہوں خریدار پر یہ کھل جائے
نیا نہیں ہوں رکھا ہوں یہاں نیا کر کے
میں جوتیوں میں بھی بیٹھا ہوں پورے مان کے ساتھ
کسی نے مجھ کو بلایا ہے التجا کر کے
بشر سمجھ کے کیا تھا نا یوں نظر انداز
لے میں بھی چھوڑ رہا ہوں تجھے خدا کر کے
تو پھر وہ روتے ہوئے منتیں بھی مانتے ہیں
جو انتہا نہیں کرتے ہیں ابتدا کر کے
بدل چکا ہے مرا لمس نفسیات اس کی
کہ رکھ دیا ہے اسے میں نے ان چھوا کر کے
منا بھی لوں گا گلے بھی لگاؤں گا میں علیؔ
ابھی تو دیکھ رہا ہوں اسے خفا کر کے
خود کو بھی میں نہیں موافق ہوں
توبہ میں کس قدر منافق ہوں
اک یہی عیب مجھ میں کافی ہے
میں نہیں آپ کے مطابق ہوں
اس جہاں میں جہاں برائی ہے
میں ہی ناچیز اس کا خالق ہوں
آپ ناحق بھی ہیں تو ہیں حق پر
اور میں حق پہ ہو کے ناحق ہوں
وقت اب یوں نظر چراتا ہے
جیسے اس کا پرانا عاشق ہوں
اک طرف عشق اک حماقت ہے
اک طرف میں ازل سے احمق ہوں
اس مرض کی ہو کیا دوا ابرک
جس میں خود،خود کو خود ہی لاحق ہوں
میں وہ شخصجو تجھے کھو کے چپ رہا
یعنی _ میں خالی ہاتھ ہو کے چپ رہا
لمحہِ اول سے جانتا تھا میں شدّتِ طوفاں،
ارادتاً سفینہ اپنا_ ڈبو کے چپ رہا،
نم آنکھ اگر ہوتی تو غم چھلک جاتا،
کم خواب خشک آنکھوں سے رو کے چپ رہا،
خونِ جگر سے پالا میں نے جنونِ عشق،
اس گوہرِ کمیاب__ کو کھو کے چپ رہا،
میں مانتا تھا اس کو کل کائنات احمد~
اور ہاتھ دونوں جہان سے دھو کے چپ رہا
دیواروں کا بننا نہ بننا تو بعد کی بات
گھر میں خاک بناؤں گا جب نقشہ نہیں بنتا
جب بھی کسی سے کوئی بچھڑے میں رو پڑتا ہوں
ویسے ان باتوں پر میرا رونا نہیں بنت
غمِ ہجر سے نہ دل کو کبھی ہمکنار کرنا
میں پِھر آؤں گا پلٹ کر میرا انتظار کرنا
مجھے ڈر ہے میرے آنسو تِری آنکھ سے نہ چھلکیں
ذرا سوچ کر سمجھ کر مجھے سوگوار کرنا
اُسے ڈھوُنڈ سب سے پہلے جو مِلا نہیں ہے تُجھ کو
یہ ستارے آسماں کے کبھی پھر شمار کرنا
مرے شہر کی فضا میں کوئی زہر بھر گیا ہے
ترے حسن پر ہے لازم اُسے خوشگوار کرنا
میں اُٹھاؤں گا نہ احساں تِرے بعد ناخدا کا
مجھے توُ نے ہی ڈبویا، مجھے توُ ہی پار کرنا
یہی رہ گیا مداوا مِری بدگمانیوں کا
تِرا مُسکرا کے مِلنا، مِرا اعتبار کرنا
مرے بدنصیب واعظ تری زندگی ہی کیا ہے
نہ کسی سے دل لگانا نہ کسی سے پیار کرنا
کبھی اقتدار بخشے جو خدا قتیلؔ تجھ کو
جو روش ہے قاتلوں کی وہ نہ اختیار کرنا
قتیل شفائی
Leave a Commentﮐﯿﺠﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺘﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﺎﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﻦ ﮐﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮِ ﻏﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮭﻮﺋﮯﮐﮭﻮﺋﮯﺳﮯﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯﮨﯿﮟ
ﺩﻭ ﻗﺪﻡ ﭼﻞ ﮐﮯ ﺭﮦ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﮏ ﮔﺌﮯ ﺗﻢ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﺎﻧﭧ ﻟﯽ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟﺧﻮﺷﯿﺎﮞ
ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﮔﻨﺘﯽ ﮐﮯ ﺩﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﻗﺎﻓﻠﮧ ﭼﻞ ﮐﮯ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎ
ﭨﮭﮩﺮﻭﭨﮭﮩﺮﻭ ! ﮐﮧ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯﻣﻨﮕﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ
ﺩﻧﮓ ﺍﮨﻞِ ﮐﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺘﺎﺭﯾﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﻮ
ﻋﺎﺻﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﮮ ﺻﺒﺎ ! ﺍﯾﮏ ﺯﺣﻤﺖ ﺫﺭﺍ ﭘﮭﺮ
ءﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺎﺋﻨﺎﺕِ ﺟﻔﺎ ﻭ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﺝ ﺳﺎﻗﯽ ﭘﻼ ﺷﯿﺦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ
ﺍﯾﮏ ﯾﮧ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﮔﻠﯽ ﮐﺲ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﭨﮭﺘﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﻗﺪﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺗﻮ ﺁ ﮐﺮ ﮔﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮯ
ﺩﻝ ﭘﮧ ﻧﻘﺶ ﻗﺪﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﻝ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ،ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﻭﮦ
ﮨﻢ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﻭﺭِ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮِ ﺁﺧﺮ
ﺍﮮ ﻧﺼﯿﺮ ! ﺍﯾﮏ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
۔۔۔۔۔۔۔۔
ﭘﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﺼﯿﺮ ﮔﻮﻟﮍﻭﯼ
اس اک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں
میں جو بھی دیکھتا ہوں بھولتا نہیں
کسی منڈیر پر کوئی دیا جلا
پھر اس کے بعد کیا ہوا پتا نہیں
ابھی سے ہاتھ کانپنے لگے میرے
ابھی تو میں نے وہ بدن چھوا نہیں
میں آرہا تھا راستے میں پھول تھے
میں جا رہا ہوں کوئی روکتا نہیں
تیری طرف چلے تو عمر کٹ گئی
یہ اور بات راستہ کٹا نہیں
میں راہ سے بھٹک گیا تو کیا ہوا
چراغ میرے ہاتھ میں تو تھا نہیں
میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بےخبر
میں مر چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں
اس اژدھے کی آنکھ پوچھتی رہی
کسی کو خوف آرہا ہے یا نہیں
یہ عشق بھی عجیب کہ اک شخص سے
مجھے لگا کہ ہوگیا ہوا نہیں
خدا کرے وہ پیڑ خیریت سے ہو
کئی دنوں سے اس کا رابطہ نہیں۔
تہذیب حافی
Leave a Comment