Skip to content

The Poet Place Posts

اس واسطے لہجے مرے تلوار ہوئے ہیں

اس واسطے لہجے مرے تلوار ہوئے ہیں
چاہت کے سبھی وار جو بیکار ہوئے ہیں

ہر شام امڈ آتی ہے ان آنکھوں میں جو لالی
سب خواب ترے پیار میں مے خوار ہوئے ہیں

جو لوگ خدا تھے کبھی اپنی ہی زمیں کے
وہ آج مرے قدموں سے ہموار ہوئے ہیں

دل جن کا دھڑکتا تھا کبھی یوں نہ اکیلے
اب ذات سے میری وہی بے زار ہوئے ہیں

ہم وجد کے بانی تھے مگر بن کے یوں گھنگھرو
اب یار ترے قدموں کی جھنکار ہوئے ہیں

دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی ہے یہاں اب
سب اپنے پیادے ہی یوں غدار ہوئے ہیں

دستور عجب ہے مری بستی کا اے لوگو
وہ لوگ جو قاتل تھے سردار ہوئے ہیں

Leave a Comment

رقص کیا ہے دھمال ہے صاحب

رقص کیا ہے دھمال ہے صاحب
تشنگی کا کمال ہے صاحب

اب تو بینائی بھی چٹختی ہے
اس پہ اشکوں کا کال ہے صاحب

ہوک توڑے ہے حائطِ سینہ
سانس لینا محال ہے صاحب

عشق چھُو لے جسے تو اس کو پھر
دنیاداری وبال ہے صاحب

تم بھکاری جسے سمجھتے ہو
صاحبِ وجد و حال ہے صاحب

جو بھی کاتب نے لکھ دیا حق ہے
اس پہ تدبیر چال ہے صاحب

کون تقدیر سے مبرا ہے
کس کی اتنی مجال ہے صاحب

رقص کیا ہے دھمال ہے صاحب
تشنگی کا کمال ہے صاحب

اب تو بینائی بھی چٹختی ہے
اس پہ اشکوں کا کال ہے صاحب

ہوک توڑے ہے حائطِ سینہ
سانس لینا محال ہے صاحب

عشق چھُو لے جسے تو اس کو پھر
دنیاداری وبال ہے صاحب

تم بھکاری جسے سمجھتے ہو
صاحبِ وجد و حال ہے صاحب

جو بھی کاتب نے لکھ دیا حق ہے
اس پہ تدبیر چال ہے صاحب

کون تقدیر سے مبرا ہے
کس کی اتنی مجال ہے صاحب

Leave a Comment

بجھے چراغ سرِ طاق دھر کے روئے گا

بجھے چراغ سرِ طاق دھر کے روئے گا
وہ گزرا وقت کبھی یاد کر کے روئے گا

یہ جس مقام پہ بچھڑے ہیں آکے ہم دونوں
اسی مقام سے تنہا گزر کے روئے گا

مری ستائشی آنکھیں کہاں ملیں گی تجھے
تُو آئینے میں بہت بن سنور کے روئے گا

میں جانتا ہوں مرے پر کتَر رہا ہے وہ
میں جانتا ہوں مرے پر کتَر کے روئے گا

اسے تو صرف بچھڑنے کا دُکھ ہے اور مجھے
یہ غم بھی ہے وہ مجھے یاد کر کے روئے گا

مقامِ ربط کے زینے وہ جلدبازی میں
اتر تو جائے گا لیکن اتر کے روئے گا

وہ سخت جاں سہی لیکن مری جدائی میں
ظہیر ریت کی صورت بکھر کے روئے گا

Leave a Comment

تھم سی گئی ہے وقت کی رفتار، گھر میں رہ

تھم سی گئی ہے وقت کی رفتار، گھر میں رہ
نادیدہ اک عدو کی ہے یلغار، گھر میں رہ

شامل ہے بزدلوں میں تو باہر نکل کے بھاگ
دشمن سے گر ہے بر سرِ پیکار، گھر میں رہ

رہ کر بھی ساتھ ساتھ کبھی ہاتھ مت ملا
کر رسم و راہ سے سبھی انکار، گھر میں رہ

کہہ دے کہ گھر میں بیٹھنے والے ہیں ہم سبھی
دشمن کے آگے ڈال دے ہتھیار، گھر میں رہ

گھر میں ہی رہ کے لڑنا ہے اب کے عدو سے جنگ
اُس پر چلے گا تیر نہ تلوار، گھر میں رہ

دھو ہاتھ بار بار، نہ دھو زندگی سے ہاتھ
سانسوں سے تیری گھر میں ہے مہکار، گھر میں رہ

تسکین کتنے چہروں پہ ہے تجھ سے، یاد رکھ
باہر ہے گرم خوف کا بازار، گھر میں رہ

ٹوٹا ہوا بھی دل ہو تو مت رنج کر کوئی
گر اپنے آپ سے ہے تجھے پیار، گھر میں رہ

سیلاب ہے بلا کا، دریچے سے جھانک، دیکھ
خستہ سفینہ، ٹوٹی ہے پتوار، گھر میں رہ

چارہ گروں کا بھی ہے یہی سب سے التماس
حالات و وقت کا بھی ہے اصرار گھر میں رہ

تنہا سکوں سے بیٹھ کے خالق سے لو لگا
خود کو بنا لے رحم کا حق دار، گھر میں رہ

بے شک اگر ہے جان تو راغبؔ جہان ہے
دیوار و در ہیں تجھ سے ہی ضوبار، گھر میں رہ

Leave a Comment

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات
مرکزِ حمد و ثنا ہے تیری ذات

ساری دنیا کا ہے پالن ہار تُو
محورِ ارض و سما ہے تیری ذات

تیرے ہی رحم و کرم کی آس ہے
مالکِ یومِ جزا ہے تیری ذات

ہاتھ پھیلائے کوئی کس کے حضور
رب ہے تُو حاجت روا ہے تیری ذات

تُو ہی واقف ہے دلوں کے حال سے
منبعِ نورِ ہدیٰ ہے تیری ذات

ہے اگر کچھ تو ہے بس تیری عطا
کچھ نہیں تو آسرا ہے تیری ذات

کار سازی تیری ہر ذرّے میں ہے
ہر جگہ جلوہ نما ہے تیری ذات

مشکلیں راغبؔ کی بھی آسان کر
اے خدا! مشکل کشا ہے تیری ذات

Leave a Comment

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِرگِ سنگ

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِرگِ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک

محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک

آزاد کی دولت دل روشن، نفس گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک

محکوم ہے بیگانہء اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجہ افلاک

Leave a Comment

‏وہ شخص بھی شعر تھا کوئی سہلِ ممتنع میں

‏وہ شخص بھی شعر تھا کوئی سہلِ ممتنع میں
‏نہیں کھلا گر چہ اس کی کوئی پرت نہیں تھی

‏اک اور عشق آ گیا تھا دورانِ ہجر، ٹالا
‏ممانعت تو نہیں تھی، مجھ میں سکت نہیں تھی

‏عمیرنجمی

Leave a Comment

زنِ حسین تھی اور پھول چُن کے لاتی تھی

زنِ حسین تھی اور پھول چُن کے لاتی تھی
میں شعر کہتا تھا وہ داستان سناتی تھی

اسے پتہ تھا میں دنیا نہیں محبت ہوں
وہ میرے سامنے کچھ بھی نہیں چھپاتی تھی

منافقوں کو میرا نام زہر لگتا تھا
وہ جان بوجھ کے غصہ انھیں دلاتی تھی

عرب لہو تھا رگوں میں, بدن سنہری تھا
وہ مسکراتی نہیں تھی دئیے جلاتی تھی

اسے کسی سے محبت تھی اور وہ میں نہیں تھا
یہ بات مجھ سے زیادہ اسے رلاتی تھی

یہ پھول دیکھ رہے ہو یہ اس کا لہجہ تھا
یہ جھیل دیکھ رہے ہو یہاں وہ آتی تھی

میں کچھ بتا نہیں سکتا وہ میری کیا تھی علی
کہ اس کو دیکھ کے بس اپنی یاد آتی تھی

ہر ایک روپ انوکھا تھا اُس کی حیرت کا
مِرے لئے وہ زمانے بدل کے آتی تھی

میں اُس کے بعد کبھی ٹھیک سے نہیں جاگا
وہ مجھ کو خواب نہیں، نیند سے جگاتی تھی

“علی یہ لوگ تمہیں جانتے نہیں ہیں ابھی”
گلے لگا کے مِرا حوصلہ بڑھاتی تھی

” تم اُس سے دُور رہو” لوگ اُس سے کہتےتھے
” وہ میرا سچ ہے ” بہت چیخ کر بتاتی تھی

Leave a Comment

ہے طرفہ تماشا سرِ بازارِ محبت

ہے طرفہ تماشا سرِ بازارِ محبت
سر بیچتے پھرتے ہیں خریدارِ محبت

اللہ کرے تو بھی ہو بیمارِ محبت
صدقے میں چھٹیں گے تیرے گرفتارِ محبت

ابرو سے چلے تیغ تو مژگاں سے چلے تیر
تعزیز کے بھوکے ہیں خطا وارِ محبت

اس واسطے دیتے ہیں وہ ہر روز نیا داغ
اک درد کے خوگر نہ ہوا بیمارِ محبت

کچھ تذکرۃِ عشق رہے حضرتِ ناصح
کانوں کو مزہ دیتی ہے گفتارِ محبت

دل بھول نہ جائے کسی مژگاں کی کھٹک کو
کچھ چھیڑ رہے اے خلشِ خارِ محبت

جو چارہ گر آیا مری بالیں پہ یہ بولا
اللہ کو سونپا تجھے بیمارِ محبت

ثابت قدم ایسی رہِ اُلفت میں نہ ہوں گے
تھا ہم کو تہِ تیخ بھی اقرارِ محبت

دیکھا ہے زمانے کو ان آنکھوں نے تو اے داغؔ
اس رنگ پر اس ڈھنک پر انگارِ محبت​

داغؔ دہلوی​

Leave a Comment
%d bloggers like this: