ہمارے مِلنے کے یوں سبھی سلسلے رہینگے
مگر جو ہم میں گِلے رہے ہیں گِلے رہینگے
گھڑی بچھڑنے کی آگئی ہے گلے لگاؤ
وگرنہ دونوں یہاں پہ کب تک کھڑے رہینگے
کبھی تجھے میں کبھی مجھے تُو پکار لینا
نہیں تو جی میں ہزارہا وسوسے رہینگے
یہ میری شاخیں خزاں کے زیرِ اثر رہینگی
جو تیری ٹہنی پہ گُل کھِلے ہیں کھِلے رہینگے
کبھی کہیں جو تِرا مِرا سامنا ہُوا تو
ہم ایک دُوجے کو دم بخُود دیکھتے رہینگے
ہمارے شعروں کے دُکھ میں ڈھلتی ہُوئی یہ شامیں
کہ چائے خانوں میں یوں تِرے تذکرے رہینگے
وہ میکدہ ہو تِری گلی یا مِرا مکاں ہو
یہ قید خانے تو رات بھر ہی کُھلے رہینگے
کل عید کا دن بھی یوں ہی پُردرد ہی رہیگا
جو چاند راتوں میں خط لکھے ہیں لکھے رہینگے