Skip to content

Category: Uncategorized

ہمارے مِلنے کے یوں سبھی سلسلے رہینگے

ہمارے مِلنے کے یوں سبھی سلسلے رہینگے
مگر جو ہم میں گِلے رہے ہیں گِلے رہینگے

گھڑی بچھڑنے کی آگئی ہے گلے لگاؤ
وگرنہ دونوں یہاں پہ کب تک کھڑے رہینگے

کبھی تجھے میں کبھی مجھے تُو پکار لینا
نہیں تو جی میں ہزارہا وسوسے رہینگے

یہ میری شاخیں خزاں کے زیرِ اثر رہینگی
جو تیری ٹہنی پہ گُل کھِلے ہیں کھِلے رہینگے

کبھی کہیں جو تِرا مِرا سامنا ہُوا تو
ہم ایک دُوجے کو دم بخُود دیکھتے رہینگے

ہمارے شعروں کے دُکھ میں ڈھلتی ہُوئی یہ شامیں
کہ چائے خانوں میں یوں تِرے تذکرے رہینگے

وہ میکدہ ہو تِری گلی یا مِرا مکاں ہو
یہ قید خانے تو رات بھر ہی کُھلے رہینگے

کل عید کا دن بھی یوں ہی پُردرد ہی رہیگا
جو چاند راتوں میں خط لکھے ہیں لکھے رہینگے

Leave a Comment

رقص کیا ہے دھمال ہے صاحب

رقص کیا ہے دھمال ہے صاحب
تشنگی کا کمال ہے صاحب

اب تو بینائی بھی چٹختی ہے
اس پہ اشکوں کا کال ہے صاحب

ہوک توڑے ہے حائطِ سینہ
سانس لینا محال ہے صاحب

عشق چھُو لے جسے تو اس کو پھر
دنیاداری وبال ہے صاحب

تم بھکاری جسے سمجھتے ہو
صاحبِ وجد و حال ہے صاحب

جو بھی کاتب نے لکھ دیا حق ہے
اس پہ تدبیر چال ہے صاحب

کون تقدیر سے مبرا ہے
کس کی اتنی مجال ہے صاحب

رقص کیا ہے دھمال ہے صاحب
تشنگی کا کمال ہے صاحب

اب تو بینائی بھی چٹختی ہے
اس پہ اشکوں کا کال ہے صاحب

ہوک توڑے ہے حائطِ سینہ
سانس لینا محال ہے صاحب

عشق چھُو لے جسے تو اس کو پھر
دنیاداری وبال ہے صاحب

تم بھکاری جسے سمجھتے ہو
صاحبِ وجد و حال ہے صاحب

جو بھی کاتب نے لکھ دیا حق ہے
اس پہ تدبیر چال ہے صاحب

کون تقدیر سے مبرا ہے
کس کی اتنی مجال ہے صاحب

Leave a Comment

بجھے چراغ سرِ طاق دھر کے روئے گا

بجھے چراغ سرِ طاق دھر کے روئے گا
وہ گزرا وقت کبھی یاد کر کے روئے گا

یہ جس مقام پہ بچھڑے ہیں آکے ہم دونوں
اسی مقام سے تنہا گزر کے روئے گا

مری ستائشی آنکھیں کہاں ملیں گی تجھے
تُو آئینے میں بہت بن سنور کے روئے گا

میں جانتا ہوں مرے پر کتَر رہا ہے وہ
میں جانتا ہوں مرے پر کتَر کے روئے گا

اسے تو صرف بچھڑنے کا دُکھ ہے اور مجھے
یہ غم بھی ہے وہ مجھے یاد کر کے روئے گا

مقامِ ربط کے زینے وہ جلدبازی میں
اتر تو جائے گا لیکن اتر کے روئے گا

وہ سخت جاں سہی لیکن مری جدائی میں
ظہیر ریت کی صورت بکھر کے روئے گا

Leave a Comment

نجانے کیوں دلوں کے سلسلے پیہم نہیں ملتے

نجانے کیوں دلوں کے سلسلے پیہم نہیں ملتے
جہاں پر ہم میسر ہوں وہاں پر تم نہیں ملتے

یقیناً فاصلوں میں اک طرح سے جوش قربت ہے
کنارے ساتھ چلتے ہیں مگر باہم نہیں ملتے

ترستا ہے کوئی اک پل کی راحت کے لیے برسوں
کسی کو چاہ کر بھی زندگی میں غم نہیں ملتے

کہیں ملتا نہیں عشاق کو سامان دلجوئی
کہ اب معشوق کی زلفوں میں پیچ و خم نہیں ملتے

فقیروں کے قدم چومے ہمیشہ کجکلاہوں نے
خزانے خاک کے ذروں میں بھی کچھ کم نہیں ملتے

کسی بھی پیڑ پر کردار کے اب پھل نہیں لگتا
مزاجوں میں مروت کے وہ اب موسم نہیں ملتے

خیالوں کے سفر نے تو ہمیں لٹکا دیا عابد
فلک ہم سے نہیں ملتا , زمیں سے ہم نہیں ملتے

عابد بنوی

Leave a Comment

نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا

نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا
یہ عشق چاک گھماتے ہوئے نہیں ڈرتا

مرے وسیلے سے جتنے بھی پیڑ روئے ہیں
انہیں میں ہِیر سناتے ہوئے نہیں ڈرتا

حضور! آپ ہی روکیں کہ میں تو پاگل ہوں
کسی سے ہاتھ ملاتے ہوئے نہیں ڈرتا

ہزار بار بتایا کہ بد شگونی ہے
مگر وہ ہونٹ چباتے ہوئے نہیں ڈرتا

میں پیٹ کاٹ کے زندہ ہوں اور ڈرتا ہوں
تُو فن کو بیچ کے کھاتے ہوئے نہیں ڈرتا؟

عجیب شوقِ طبیعت ہے افتخار فلکؔ
کوئی بھی آنکھ لڑاتے ہوئے نہیں ڈرتا

Leave a Comment

عشق ہم سے ہوا ہی نہیں

عشق ہم سے ہوا ہی نہیں
بس اندھیرا کوئی دیا ہی نہیں

بچھڑ کے کہتے ہو بچپنا چھوڑو
جیسے یہ کوئی سزا ہی نہیں

دشت بھر یوں اداس ترے بعد
فضا میں کوئی ہوا ہی نہیں

نمی آنکھوں سے بہے جاتی ھے
ویسے دل کو کوئی گلہ ہی نہیں

عجب سناٹا ھے بین کرتا ہوا
جیسے اپنا کوئی رہا ہی نہیں

تم بھی جاو گے تو کیا کہوں گا
زمانے تجھ میں زرا وفا ہی نہیں

میں مریض عشق ہوں صاحب
آپ کہہ دو کوئی دوا ہی نہیں

رضی وہ مصروف قتل ہیں ایسے
جیسے بستی میں خدا ہی نہیں

Leave a Comment

پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے

پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے
میں خوش نہیں ہوں تجھے خود میں مبتلا کر کے

اصولی طور پہ مر جانا چاہیے تھا مگر
مجھے سکون ملا ہے تجھے جدا کر کے

یہ کیوں کہا کہ تجھے مجھ سے پیار ہو جائے
تڑپ اٹھا ہوں ترے حق میں بد دعا کر کے

میں چاہتا ہوں خریدار پر یہ کھل جائے
نیا نہیں ہوں رکھا ہوں یہاں نیا کر کے

میں جوتیوں میں بھی بیٹھا ہوں پورے مان کے ساتھ
کسی نے مجھ کو بلایا ہے التجا کر کے

بشر سمجھ کے کیا تھا نا یوں نظر انداز
لے میں بھی چھوڑ رہا ہوں تجھے خدا کر کے

تو پھر وہ روتے ہوئے منتیں بھی مانتے ہیں
جو انتہا نہیں کرتے ہیں ابتدا کر کے

بدل چکا ہے مرا لمس نفسیات اس کی
کہ رکھ دیا ہے اسے میں نے ان چھوا کر کے

منا بھی لوں گا گلے بھی لگاؤں گا میں علیؔ
ابھی تو دیکھ رہا ہوں اسے خفا کر کے

Leave a Comment

میں وہ شخصجو تجھے کھو کے چپ رہا

میں وہ شخصجو تجھے کھو کے چپ رہا
یعنی _ میں خالی ہاتھ ہو کے چپ رہا

لمحہِ اول سے جانتا تھا میں شدّتِ طوفاں،
ارادتاً سفینہ اپنا_ ڈبو کے چپ رہا،

نم آنکھ اگر ہوتی تو غم چھلک جاتا،
کم خواب خشک آنکھوں سے رو کے چپ رہا،

خونِ جگر سے پالا میں نے جنونِ عشق،
اس گوہرِ کمیاب__ کو کھو کے چپ رہا،

میں مانتا تھا اس کو کل کائنات احمد~
اور ہاتھ دونوں جہان سے دھو کے چپ رہا

Leave a Comment

تُو کبھی بیٹھ مرے پَاس، مری بَات سمجھ

تُو کبھی بیٹھ مرے پَاس، مری بَات سمجھ
دیکھ یہ ہاتھ کَبھی خاک کی اوقات سمجھ

ہے محبت مرے گَاؤں میں بَغاوت کی طرح
تُو کبھی شہر سے بَاہر کے بھی حَالا ت سمجھ

اس محبت کو اگر مَان مُثلث کوئی
اور مجھے ڈَھاک کے پَاتوں سے کوئی پات سمجھ

تو سکھا ئے گا مجھے عِشق کے اِسرار و رَموز
میں ہوں مَنصور صفَت عشق مری ذَات سمجھ

جِسم کی چاہ میں شہزادی یہ بَاندی نہ بنا
جیت کے جشن میں پِنہاں ہے کوئی مات سمجھ

قِہقہوں میں چھپا رکھی ہے کہانی غم کی
ہجر کے مارے ہوئے لوگوں کے جذبات سمجھ

کَچی پنسل سے خدوخال تو کاغذ پہ اتار
پہلے اس جسم کی حُرمت کی روایات سمجھ

Leave a Comment

ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے

ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے
ہے وہی اپنا کہ جو اپنے سے بیگانہ رہے

کفر سے یہ التجائیں کر رہا ہوں بار بار
جاؤں تو کعبہ مگر رخ سوئے مے خانہ رہے

شمع سوزاں کچھ خبر بھی ہے تجھے او مست غم
حسن محفل ہے جبھی جب تک کہ پروانہ رہے

زخم دل اے زخم دل ناسور کیوں بنتا نہیں
لطف تو جب ہے کہ افسانے میں افسانہ رہے

ہم کو واعظ کا بھی دل رکھنا ہے ساقی کا بھی دل
ہم تو توبہ کر کے بھی پابند میخانہ رہے

آخرش کب تک رہیں گی حسن کی نادانیاں
حسن سے پوچھو کہ کب تک عشق دیوانہ رہے

فیض راہ عشق ہے یا فیض جذب عشق ہے
ہم تو منزل پا کے بھی منزل سے بیگانہ رہے

مے کدہ میں ہم دعائیں کر رہے ہیں بار بار
اس طرف بھی چشم مست پیر میخانہ رہے

آج تو ساقی سے یہ بہزادؔ نے باندھا ہے عہد
لب پہ توبہ ہو مگر ہاتھوں میں پیمانہ رہے

Leave a Comment
%d bloggers like this: