Skip to content

Category: Uncategorized

ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حَسیں پر

ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حَسیں پر
مجبور نہ کر مُجھ کو مَحبّت کے یقیں پر

اے تو! کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر
تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشین پر

حق ہے کہ ستاؤ مگر اتنا نہ ستاؤ
پڑ جائے مری آنکھ کسی اور حَسیں پر

حالات جدائی الم انگیز نہیں ہیں
لکھا ہے ترا نام مری لوحِ جبیں پر

یہ بھیگی ہوئی رات یہ کیفیتِ عرفاں
چاہوں تو ستارے بھی اتر آئیں زمیں پر

ہاں ہم نے ہی کھائے ہیں دلِ زار پہ چرکے
ہم قتل بھی ہو جائیں تو الزام ہمیں پر

لہجے کی درشتی لبِ نازک پہ گراں ہے
اوراقِ سمَن صَرف نہ کر لفظِ ‘نہیں’ پر

وہ میرے لیے موردِ الزام محبّت
آتا ہے ترس شاد مجھے حُسنِ حَزیں پر

شاد عارفی

Leave a Comment

وہ لڑکی دُکھوں کی ماری ہو سکتی ہے

وہ لڑکی دُکھوں کی ماری ہو سکتی ہے
ورنہ وہ تو اور بھی پیاری ہو سکتی ہے

تیرے جانے پر میں جی تو سکتا ہوں
پر جینے میں دشواری ہو سکتی ہے

گھر کی باتیں باہر لے جا سکتے ہیں
گھر کے اندر دنیا داری ہو سکتی ہے

دیکھ ! دوپٹہ لے کر گھر سے نکلا کر
دیکھ ! ہوس تو سب پہ طاری ہو سکتی ہے

ایک شکل پہ کتنے چہرے ہو سکتے ہیں
ایک محبت کتنی باری ہو سکتی ہے

ان آنکھوں میں تھوڑا کاجل ڈالا کر
اِن میں تھوڑی اور خماری ہو سکتی ہے

ہجر مجھے بھی موت عطا کر سکتا ہے
اُس کو بھی تو یہ بیماری ہو سکتی ہے

Leave a Comment

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے ، نہیں ، ایسا نہیں

وارداتِ دل کا قصہ ہے ، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے ، میرا آئینہ نہیں

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں

تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق
تم کو اِس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں

اُن سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب
عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں

کب تری بوئے قبا سے بے وفائی دل نے کی
کب مجھے بادِ صبا نے خون رُلوایا نہیں

مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں

یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں

ثبت ہیں اس بام و در پر تیری آوازوں کے نقش
میں ، خدا نا کردہ، پتھر پوجنے والا نہیں

خامشی، کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں

کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجئے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

Leave a Comment

ﮐﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﮐﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﺷﻨﺎﺱ ﻣﺮﻭﺕ ﻣﻴﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﻓﺴﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﭼﮭﭩﯽ ﺣﺲ ﻧﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﮩﺪِ ﺧﻼﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﺮﺍ ﯾﮧ ﺧﻮﻥ ﻣﺮﮮ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺮﺍﺳﺖ ﻣﻴﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻤﺎﻥ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﻣﺮﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ
ﻭﮔﺮﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻣﯿﮟ ﭼﭗ ﺭﮨﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﮮ ﮔﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺿﻤﯿﺮ
ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯼ ﺗﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻓﺮﺍﻍ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﺴﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﻟﯿﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ

Leave a Comment

بتاؤ کون کہتا ہے, محبت بس کہانی ہے

بتاؤ کون کہتا ہے, محبت بس کہانی ہے
محبت تو صحیفہ ہے, محبت آسمانی ہے

محبت کو خدارا تم, کبھی بھی جھوٹ نہ سمجھو
محبت معجزہ ہے__ معجزوں کی ترجمانی ہے

محبت پھول کی خوشبو, محبت رنگ تتلی کا
محبت پربتوں کی جھیل کا شفاف پانی ہے

محبت اک ستارہ ہے, وفا کا استعارہ ہے
محبت سیپ کا موتی, بحر کی بیکرانی ہے

زمیں والے بتاؤ کس طرح سمجھیں محبت کو
محبت تو زمیں پر آسمانوں کی نشانی ہے

محبت روشنی ہے, رنگ ہے, خوشبو ہے , نغمہ ہے
محبت اڑتا پنچھی ہے, محبت بہتا پانی ہے

محبت ماؤں کا آنچل, محبت باپ کی شفقت
محبت ہر جگہ, ہر پل, خدا کا نقش ثانی ہے

محبت بہن کی الفت, محبت بھائی کی چاہت
محبت کھیلتا بچہ ہے اور چڑھتی جوانی ہے

محبت حق کا کلمہ ہے, محبت چاشنی من کی
محبت روح کا مرہم, دلوں کی حکمرانی ہے

محبت تو ازل سے ہے,محبت تا ابد ہوگی
محبت تو ہے آفاقی, زمانی نہ مکانی ہے

فنا ہو جاۓ گی دنیا, فنا ہو جائیں گے ہم تم
فقط باقی محبت ہے, محبت جاودانی ہے

Leave a Comment

ہم شاہ جہاں کے ہتھ کٹے مزدور تک گئے

ہم شاہ جہاں کے ہتھ کٹے مزدور تک گئے
فاقہ اور فکر ایک ساتھ تندور تک گئے

موسیٰ کے سوا کوئی بھی زندہ نہی بچا
جو لوگ خدا دیکھنے کوہِ طور تک گئے

اندھیرے میں اندھیرا ہی میرا ساتھی تھا
ہم روشنی کے دھوکے میں بڑی دور تک گئے

مولا تیری دنیا میں تجھے ہر جگہ ڈھونڈا
جب خود میں ہم اترے تو تیرے نور تک گئے

پھانسی کا اعلان جب مسجد میں ہوا تھا
پھر دیکھنے مجھے چوک میں معذور تک گئے

کچھ نے اسے کافر کہا کچھ نے شہیدِ حق
ہم حق کا ظرف کھوجنے منصور تک گئے

ہم لوگ ہوس زادے ہیں اسی واسطے حیدر
ہم لوگ تو جنت میں بھی بس حور تک گئے

Leave a Comment

کھیل میں کچھ تو گڑ بڑ تھی جو آدھے ہو کر ہارے لوگ

کھیل میں کچھ تو گڑ بڑ تھی جو آدھے ہو کر ہارے لوگ
آدھے لوگ نِری مٹی تھے ، آدھے چاند ستارے لوگ

اُس ترتیب میں کوئی جانی بوُجھی بے ترتیبی تھی
آدھے ایک کنارے پر تھے ، آدھے ایک کنارے لوگ

اُس کے نظم و ضبط سے باہر ہونا کیسے ممکن تھا
آدھے اس نے ساتھ ملائے ، آدھے اس نے مارے لوگ

آج ہماری ہار سمجھ میں آنے والی بات نہیں
اُس کے پورے لشکر میں تھے آدھے آج ہمارے لوگ

کس کے ساتھ ہماری یک جانی کا منظر بن پاتا
آدھے جان کے دشمن تھے اور آدھے جان سے پیارے لوگ

ان پر خواب ہوا اور پانی کی تبدیلی لازم ہے
آدھے پھیکے بے رس ہو گئے ، آدھے زہر تمہارے لوگ

آدھی رات ہوئی تو غم نے چپکے سے در کھول دیے
آدھوں نے تو آنکھ نہ کھولی آدھے آج گزارے لوگ

آدھوں آدھ کٹی یک جائی ، پھر دوجوں نے بیچوں بیچ
آدھے پاؤں کے نیچے رکھے ، آدھے سر سے وارے لوگ

ایسا بندو بست ہمارے حق میں کیسا رہنا تھا
ہلکے ہلکے چن کر اس نے آدھے پار اُتارے لوگ

کچھ لوگوں پر شیشے کے اُس جانب ہونا واجب تھا
دھار پہ چلتے چلتے ہو گئے آدھے آدھے سارے لوگ

Leave a Comment

اُس کی تمام عمر کا ترکہ خرید لے

اُس کی تمام عمر کا ترکہ خرید لے
بڑھیا کا دل تھا کوئی تو چرخہ خرید لے

بچوں کا رزق دے مجھے قیمت کے طور پر
تُو تو میرا خدا ہے نا ، سجدہ خرید لے

اک بوڑھا اسپتال میں دیتا تھا یہ صدا
ہے کوئی جو غریب کا گُردہ خرید لے ؟

مزدور کی حیات اِسی کوشش میں کٹ گئی
اک بار اُس کا بیٹا بھی بستہ خرید لے

ہم سر کٹا کے بیٹھے ہیں مقتل کی خاک پہ
دشمن سے کوئی کہہ دے کہ نیزہ خرید لے

تُو نے خریدے ہوں گے مؤذن عناد میں
گر بس میں ہے تو آ ! میرا لہجہ خرید لے

پیاسے کے اطمینان سے لگتا تھا دشت میں
چاہے تو مشک بیچ کے، دریا خرید لے

جب اُس سے گھر بنانے کے پیسے نہ بن سکے
وہ ڈھونڈتا رہا ، کوئی نقشہ خرید لے

بیٹی کی شادی سر پہ تھی اور دل تھا باپ کا
زیور کے ساتھ، چھوٹی سی گڑیا خرید لے

تُو بادشاہ ہے، فقر کے طعنے نہ دے مجھے
بس میں نہیں تیرے میرا کاسہ خرید لے

حیؔدر وہ صدیاں بیچ کے آیا تھا میرے پاس
ممکن نہیں ہوا، میرا لمحہ خرید لے

Leave a Comment

مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے

مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے
جو اجنبی تھے وہی ان کے رازداں نکلے

حرم سے بھاگ کے پہنچے جو دَیرِ راہب میں
تو اہلِ دَیر ہمارے مزاج داں نکلے

بہت قریب سے دیکھا جو فوجِ اعداء کو
تو ہر قطار میں یارانِ مہرباں نکلے

سکوتِ شب نے سکھایا ہمیں سلیقۂ نطق
جو ذاکرانِ سحر تھے وہ بے زباں نکلے

میانِ راہ کھڑے ہیں اس انتظار میں ہم
کہ گردِ راہ ہٹے، اور کارواں نکلے

گماں یہ تھا کہ پسِ کوہ بستیاں ہوں گی
وہاں گئے تو مزاراتِ بے نشاں نکلے

افق سے پہلے تو دھندلا سا اک غبار اٹھا
پھر اس کے بعد ستاروں کے کارواں نکلے

کمالِ شوق سے چھیڑا تھا جن کو مطرب نے
وہ راگ ساز کے سینے سے نوحہ خواں نکلے

رئؔیس حجرۂ تاریک جاں کو کھول تو دوں
جو کوئی آفتِ قتالۂ جہاں نکلے​

Leave a Comment

الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے​

الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے​
جنوں کو تو مرے، مولا شکیبائی عطا کر دے​

بنوں رہبر دکھاؤں راہ میں گمراہ لوگوں کو​
مجھے وہ معرفت ، ایماں، وہ مولائی عطاکردے​

مری بے نام منزل کو نشانِ راہ دے دے تو​
مجھے تو ذات سے اپنی شناسائی عطا کر دے​

الٰہی سوچ سے میری ،ہو روشن اک جہانِ نو​
تخیل کو مرے تو ایسی گہرائی عطا کردے​

نگہ میری اٹھے جس سمت دنیا ہی بدل جائے​
مری بے نور آنکھوں کو ،وہ بینائی عطا کر دے​

معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے​
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے​

زَمن جس سے منور ہو، چمن جس سے معطر ہو​
مرے کردار کو مولا، وہ رعنائی عطا کر دے​

خیالوں کو ملے تصویر اور تعبیر خوابوں کو​
مرے وجدان کو یارب، وہ دانائی عطا کر دے​

اگر چہ عجز سے ہوں میں تہی دامن ، کرم سے تُو​
مرے بے ربط جملوں کو پذیرائی عطا کردے​

ترے در پر ندامت سے ،جھکی ہے پھر جبیں میری​
تمنائے حزیں کو اب، تو شنوائی عطا کر دے​

ترا ہی نام ہو لب پر ، نہ ہو پھر دوسرا کوئی​
نصرؔ کو اب تو وہ خلوت، وہ تنہائی عطا کردے​

Leave a Comment
%d bloggers like this: