Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ اَمر ہو جاؤں

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ اَمر ہو جاؤں
اُن کی دہلیز کے قابل میں اگر ہو جاؤں

اُن کی راہوں پہ مجھے اتنا چلانا یارب
کہ سفر کرتے ہوئے گردِ سفر ہو جاؤں

زندگی نے تو سمندر میں مجھے پھینک دیا
اپنی مٹھی میں وہ لے لیں تو گوہر ہو جاؤں

میرا محبوب ہے وہ راہبرِ کون و مکاں
جس کی آہٹ بھی میں سُن لوں تو خضر ہو جاؤں

اِس قدر عشقِ نبی ہو کہ مٹا دوں خود کو
اِس قدر خوفِ خدا ہو کہ نڈر ہو جاؤں

جو پہنچتی رہے اُن تک جو رہے محوِ طواف
ایسی آواز بنوں، ایسی نظر ہو جاؤں

ضرب دوں خود کو جو اُن سے تو لگوں لاتعداد
وہ جو مجھ میں سے نکل جائیں صفر ہو جاؤں

آرزو اب تو مظفرؔ تو جو کوئی ہے تو یہ ہے
جتنا باقی ہوں مدینے میں بسر ہو جاؤں

مظفرؔ وارثی

Leave a Comment

وہ مثل آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا

وہ مثل آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا

میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا

وصال و ہجر کے پھل دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا

مسلم تھی سخاوت جس کی دنیا بھر میں اس نے
مجھے تنخواہ بے دینار پر رکھا ہوا تھا

خط تقدیر کے سفاک و افسردہ سرے پر
مرا آنسو بھی دست یار پر رکھا ہوا تھا

فلک نے اس کو پالا تھا بڑے ناز و نعم سے
ستارہ جو ترے رخسار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تری تلوار پر رکھا ہوا تھا

وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا

ترے رستے میں میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا

جمال احسانی

Leave a Comment

درد کو جب دلِ شاعر میں زوال آتا ہے

درد کو جب دلِ شاعر میں زوال آتا ہے
جو بھی شعر آتا ہے، پتھر کی مثال آتا ہے

تیری آنکھوں میں کسی یاد کی لَو چمکی ہے
چاند نکلے تو سمندر پہ جمال آتا ہے

اک نظر تُو نے جو دیکھا تو صدی بیت گئی
مجھ کو بس اتنا حسابِ مہ و سال آتا ہے

بجلیاں جیسے چمکتے ہی کہیں کھو جائیں
اب کچھ اس طرح خیالِ خد و خیال آتا ہے

اپنے ہی حُسن سے ہیں لرزہ براندام طیور
جو بھی آتا ہے، اٹھائے ہوئے جال آتا ہے

آندھیاں میرے چراغوں کے تعاقب میں چلیں
یوں بھی بے وجہ عناصرکو جلال آتا ہے

جب بھی تصویرِ بہاراں میں بھروں رنگ ندیم
شاخ سے ٹوٹے پتوں کاخیال آتا ہے

Leave a Comment

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمھیں جس نے دل سے بھلا دیا، اسے بھولنے کی دعا کرو

کبھی حسنِ پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کہیں چلوں، مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمیِ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمھارے گھر کی بہار ہے، اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

Leave a Comment

چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ ! بڑا اندھیرا ہے

فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے

بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری
مجھے یقین دلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

بنامِ زہرہ جبینانِ خطہء فردوس
کسی کرن کو جگاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

Leave a Comment

غزال آنکھوں کو ، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں

غزال آنکھوں کو ، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں
پرانے شاعر نئی زمینوں کو دیکھتے ہیں

تو علم ہوتا ہے سانپ بچھو پلے ہوئے تھے
اگر کبھی اپنی آستینوں کو دیکھتے ہیں

تمہارا چہرہ ، تمہارے رخسار و لب سلامت
کہ ہم تو حسرت سے ان خزینوں کو دیکھتے ہیں

بچھڑنے والے اداس رت میں کلینڈروں پر
گزشتہ سالوں ، دنوں ، مہینوں کو دیکھتے ہیں

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو اجڑے ہوئے مسافر
تمہارے پاؤں سے روندے زینوں کو دیکھتے ہیں

کبھی یہ دیکھا تماشہ گاہوں کے کچھ مداری
عجیب دکھ سے تماش بینوں کو دیکھتے ہیں

پرانی تصویر ، ڈائری اور چند تحفے
بڑی اذیت سے روز تینوں کو دیکھتے ہیں

کومل جوئیہ

Leave a Comment

ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی

ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی

سر زانو پہ رکھے ہوئے کیا سوچ رہی ہو؟
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی؟

تم میری طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھیں
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی

اک دن یہ سمجھتے تھے کہ پایانِ تمنا
اک رات ہے مہتاب کے ایامِ جواں کی

اب اور ہی اوقات ہے اے جانِ تمنا
ہم نالہ کناں، بے گنَہاں، غم زدگاں کی

اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو
کہتے ہو کبھی جا کے وہاں بات یہاں کی ؟

برگشتہ ہوا ہم سے، یہ مہتاب تو پیارو
بس بات سنی، راہ چلا، کاہکشاں کی

اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی

پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں یہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی

تم چرخِ چہارم کے ستارے ہوئے لوگو
تاراج کرو زندگیاں اہلِ جہاں کی

اچھا ہمیں بنتے ہوئے، مٹتے ہوئے دیکھو
ہم موجِ گریزاں ہی سہی، آبِ رواں کی

انشاؔ سے ملو، اس سے نہ روکیں گے وہ، لیکن
اُس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی

مشہور ہے ہر بزم میں اس شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام، میاں کی

اے دوستو! اے دوستو! اے درد نصیبو
گلیوں میں، چلو سیر کریں، شہرِ بتاں کی

ہم جائیں کسی سَمت، کسی چوک میں ٹھہریں
کہیو نہ کوئی بات کسی سود و زیاں کی

انشاؔ کی غزل سن لو، پہ رنجور نہ ہونا
دیوانا ہے، دیوانے نے اک بات بیاں کی
(ابنِ انشا)

Leave a Comment

اور کچھ دیر میں

اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے

دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہوگا
مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگ

ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
ان کو شعلوں‌کے رجز اپنا پتا تو دیں‌گے
خیر، ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی، صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے

فیض احمد فیضؔ

Leave a Comment

جو گیسوے جاناں کے نہیں دام سے واقف

جو گیسوے جاناں کے نہیں دام سے واقف
دل اُن کا نہیں گردشِ ایّام سے واقف

بس ایک ہی محور پہ یہ دل گھوم رہا ہے
آنکھیں ہیں کہ بس ایک در و بام سے واقف

بے گانے پہ پھینکے گا بھلا سنگ کوئی کیوں
کچھ لوگ یقینا ہیں مِرے نام سے واقف

ہے کون جو واقف نہیں ناسازیِ دل سے
دل کس کا نہیں حسرتِ ناکام سے واقف

مرکوز توجّہ ہے فقط کام پہ راغبؔ
انعام سے واقف نہ میں اکرام سے واقف

Leave a Comment

سوز کو ساز کیا, وَجد کو وِجدان کِیا

سوز کو ساز کیا, وَجد کو وِجدان کِیا
دل کو دالان کیا, یار کو مہـمان کیا

حُجرۂ جسم میں معمول کا سنّاٹا تھا
پھر کسی لمس کی آواز نے حیران کیا

دے دیا تیرے تصوّر کے تصرّف میں یہ دل
شمع فانُوس ہوئی, گُل کو گُلِستان کیا

تُو کبھی دے نہ سکا مجھ کو خُوشی کے آنسُو
میں نے سب کچھ تری مُسکان پہ قربان کیا

تجھ کو فُٹ پاتھ پہ شب زاد نظر آئیں گے
دن ڈھلے تُو نے خرابوں پہ اگر دھیان کیا

زندہ رہنے کا ہنر آ گیا آتے آتے
زخم کو پھول کیا, درد کو درمان کیا

آئے دن کرب و اذیّت سے یہاں مرتے رہے
ایک روز اصل میں پھر مَوت نے احسان کیا

مسئلہ ہجر کا پے چیدہ بہت تھا ‘احمدؔ
کلیہِ صبر نے قدرے اسے آسان کیا

احمدؔ نواز

Leave a Comment
%d bloggers like this: