عِشق کی داستان ھے ، پیارے
اپنی اپنی زبان ھے ، پیارے
کل تک اے درد یہ تپاک نہ تھا
آج کیوں مہربان ھے ، پیارے
اُس کا کیا کیجیے جو لب نہ کھلیں ؟؟
یوں تو منہ میں زبان ھے ، پیارے
یہ تغافل بھی ھے نگاہ آمیز
اِس میں بھی ایک شان ھے ، پیارے
جس نے اے دل دیا ھے اپنا غم
اُس سے تُو بدگمان ھے ، پیارے ؟؟
میرے اَشکوں میں اھتمام نہ دیکھ
عاشقی کی زبان ھے ، پیارے۔
ھم زمانے سے انتقام تو لیں
اِک حسین درمیان ھے ، پیارے
عشق کی ایک ایک نادانی
علم و حکمت کی جان ھے ، پیارے۔
تُو نہیں ، میں ھُوں ، میں نہیں ، تُو ھے
اب کچھ ایسا گمان ھے ، پیارے
کہنے سننے میں جو نہیں آتی
وہ بھی اِک داستان ھے ، پیارے
رکھ قدم پُھونک پُھونک کر ناداں
ذرے ذرے میں جان ھے ، پیارے
تیری برھم خرامیوں کی قسم
دل بہت سخت جان ھے ، پیارے
ھاں , تیرے عہد میں ، جِگر کے سِوا
ھر کوئی شادمان ھے ، پیارے
”جگر مُراد آبادی“
Leave a Comment