Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

عِشق کی داستان ھے ، پیارے

عِشق کی داستان ھے ، پیارے
اپنی اپنی زبان ھے ، پیارے

کل تک اے درد یہ تپاک نہ تھا
آج کیوں مہربان ھے ، پیارے

اُس کا کیا کیجیے جو لب نہ کھلیں ؟؟
یوں تو منہ میں زبان ھے ، پیارے

یہ تغافل بھی ھے نگاہ آمیز
اِس میں بھی ایک شان ھے ، پیارے

جس نے اے دل دیا ھے اپنا غم
اُس سے تُو بدگمان ھے ، پیارے ؟؟

میرے اَشکوں میں اھتمام نہ دیکھ
عاشقی کی زبان ھے ، پیارے۔

ھم زمانے سے انتقام تو لیں
اِک حسین درمیان ھے ، پیارے

عشق کی ایک ایک نادانی
علم و حکمت کی جان ھے ، پیارے۔

تُو نہیں ، میں ھُوں ، میں نہیں ، تُو ھے
اب کچھ ایسا گمان ھے ، پیارے

کہنے سننے میں جو نہیں آتی
وہ بھی اِک داستان ھے ، پیارے

رکھ قدم پُھونک پُھونک کر ناداں
ذرے ذرے میں جان ھے ، پیارے

تیری برھم خرامیوں کی قسم
دل بہت سخت جان ھے ، پیارے

ھاں , تیرے عہد میں ، جِگر کے سِوا
ھر کوئی شادمان ھے ، پیارے

”جگر مُراد آبادی“

Leave a Comment

جاِنِ بہار , حُسن تیرا بے مثال ھے

جاِنِ بہار , حُسن تیرا بے مثال ھے
واللہ کمال ھے، ارے واللہ کمال ھے

آئی ھے میرے پاس تُو، اِس آن بان سے
اُتری ھو جیسے کوئی پری آسمان سے
میں کیا کہوں خُوشی سے عجب میرا حال ھے

ھائے یہ تیری مست اَدائیں ، یہ بانکپن
کِرنوں کو بھی میں چُھونے نہ دوں گا تیرا بدن
تجھ سے نظر ملائے، یہ کس کی مجال ھے

میں خوش نصیب ھُوں ، کہ تُجھے میں نے پا لیا
تُونے کرم کیا، مجھے اپنا بنا لیا
ایسے مِلے ھیں ھم ، کہ بچھڑنا مُحال ھے

جاِنِ بہار حُسن تیرا بے مثال ھے
واللہ کمال ھے، ارے واللہ کمال ھے

“شکیل بدایونی”

Leave a Comment

زنجیریں جب ٹوٹیں گی جھنکا ر تو ہوگی

زنجیریں جب ٹوٹیں گی جھنکا ر تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی
پھیلے ہوئے اس دھرتی پر ہیں لوگ جہاں تک
پہنچے گی زنجیروں کی جھنکار وہاں تک

دُنیا جاگی تو کوئی محکوم نہ ہوگا
کوئی وطن آزادی سے محروم نہ ہوگا
چکنا چور غلامی کی دیوار تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی

دُنیا بھر کے انسانوں کا یہی ہے کہنا
سب کا حق ہے امن اور چین سے زندہ رہنا
پاس نہ آنے دو نفرت کے طوفانوں کو
پیار کی آج ضرورت ہے سب انسانوں کو

پیار کی مٹی سے پیدا مہکار تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی
امن کے بادل اک دن ہر سو چھائے ملیں گے
دھوپ کے بدلے ٹھنڈے ٹھنڈے سائے ملیں گے

پورب پچھم ہوگی آزادی کی رِم جھم
روکے گی جو قوم اسے کہلائے گی مجرم
پت جھڑ میں بھی یہ دھرتی گلزار تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی

Leave a Comment

بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص​

بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص​
یہ تجھ سے پوچھتے ہوں گے تری گلی والے​

بس ایک حرفِ متانت سے جل کے راکھ ہوئے​
وہ میرے یار مِرے قہقہوں کے متوالے​

اگر وہ جان کے درپے ہیں اب تو کیا شکوہ​
وہ لوگ تھے بھی بہت میرے چاہنے والے​

مقدروں کی لکیروں سے مات کھا ہی گئے​
ہم ایک دوسرے کا ہاتھ چومنے والے​

اُسی مقام پہ کل مجھ کو دیکھ کر تنہا​
بہت اُداس ہوئے پھول بیچنے والے​

جمالؔ احسانی

Leave a Comment

‏اس زلف کا اعجاز کسی کام نہ آیا

‏اس زلف کا اعجاز کسی کام نہ آیا
میں رندِ بلا نوش تہِ دام نہ آیا
کل رات معمّہِ خمِ کاکلِ خوباں
جب تک نہ ہوا حل مجھے آرام نہ آیا
اس بند قبا کا جع ہوا مسئلہ درپیش
مے خوار کا کوئی بھی ہنر کام نہ آیا
مے خانے کا ہنگام نمونہ تھا ابد کا
گزرا بھی تو تحت سحر و شام نہ آیا
اس رات ستاروں میں بھی دیکھا گیا ٹھراو
جس رات کو گردش میں مرا جام نہ آیا
اس زلف کو کھینچا نہ گیا تا بہ حد شوق
کچھ ولولہ دل بھی میرے کام نہ آیا
کل رات مجھے اس نے کنایت سے کیا یاد
کی بات کچھ اس طرح مرا نام نہ آیا
کیا فیصلہ۔ عشق ہو نقد دل و جاں پر
اس کا بھی مزا بے درم و دام نہ آیا
وہ بخل شکر بختئی لب میں تھا کہ مجھ کو
اس نسخہء صدری سے بھی آرام نہ آیا
بت خانہ تع تھا ہی مرا گرویدہء اخلاص
میں حجلہء حوراں سے بھی ناکام نہ آیا
ساغر کی اماں میں تھا مرا کوکب اقبال
زیر اثر گردش ایام نہ آیا
خود ٹوٹ گیا بند قبا بے خبری میں
صد شکر مرے ہاتھ پہ الزام نہ آیا
لمحہ جو ترے ساتھ گزارا تو ابد تھا
تعریف میں ماضی کی یہ ہنگام نہ آیا
کل رات وہ نقش ازلی جام کی تہہ سے
ابھرا تو سہی تا بہ لب جام نہ آیا
عالم ہے یہ اب بے خبری کا کسی نے
پوچھا تو مجھے یاد ترا نام نہ آیا
تا گوشہء زنداں کی طرح عالم اسباب
تا عمر مری روح کو آرام نہ آیا
چھلکا کے سبو ہم نے خزاں کا بھی دیا ساتھ
لب پہ گلہء گردش ایام نہ آیا
کھولا تھا کبھی پیرہن دخت کنشتاں
پھرا راس مجھے جامہء احرام نہ آیا
وہ راز جنوں جو میرے سینے میں تھا محفوظ
وحشت کے بھی عالم میں سر عام نہ آیا
کل شب مجھے جبریل کی آمد کا تھا احساس
دیکھا تو نظر کچھ بھی سر جام نہ آیا
ہم جال بجھاتے ہی رہے زہد و ورع کے
وہ آہوئے اسرار تہہ دام نہ آیا
آئینہ جو دل کا ہوا عکاس بدی بھی
کچھ صیقل آئینہ پہ الزام نہ آیا
میں رند تھا میخانے نے بجشا مجھے اعزاز
شاہوں سے مجھے خلعت و انعام نہ آیا
بہکا بھی جو میں حرف گزارش نہ ہوا خبط
کچھ گفتگوئے شوق میں ابہام نہ آیا
جو میری غزل سے ہوا مسحور پھر اس کو
لطف قصص دارا و بھرام نہ آیا
تھا صاحب اسرار و کرامت تو ظفر بھی
لیکن یہ قدح خوار سر عام نہ آیا

Leave a Comment

میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں ا ہوں

میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں ا ہوں
قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں کے میلے کتبے ے
دنوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں
شفق کی ٹھنڈی چتاؤں سے راکھ اڑ رہی ہے
جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے ہیں
جگہ جگہ ڈھیر ہو گئی ہیں عظیم صدیاں
میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں مقدس، ہتھیلیوں سے گری ہے مہندی
دیوں کی ٹوٹی ہوئی لویں زنگ کھا گئی ہیں
یہیں پہ ماتھوں کی روشنی جل کے بجھ گئی ہے
سپاٹ چہروں کے خالی پنے کھلے ہوئے ہیں
حروف آنکھوں کے مٹ چکے ہیں
میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں کہیں زندگی کے معنی گرے ہیں اور گر کے کھو گئے ہیں
گلزار

Leave a Comment

چشمِ ساقی نے یہ کیا کھیل رَچا رکھا ہے

چشمِ ساقی نے یہ کیا کھیل رَچا رکھا ہے
کوئی زاہد تو کوئی مے خوار بنا رکھا ہے

جو پھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زُلفوں نے عجب جال بِچھا رکھا ہے

حُسن ہو ، یا عشق ہو دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک ، مگر نام جُدا رکھا ہے

رُخ پہ لہراتی ہیں کبھی شانوں سے اُلجھ پڑتی ہیں
تُو نے زُلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے

تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مے خانے میں کیا رکھا ہے

میری نظروں میں کوئی کیسے جچے اے ساجدؔ
نسبتِ یار نے مغرور بنا رکھا ہے

Leave a Comment

منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی

منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے

سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے

آزاده رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاه و منصب و ثروت نہیں مجھے

اُستادِ شہ سے ہو مجھے پَرخاش کا خیال؟
یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے

جامِ جہاں نُما ہے شہنشاه کا ضمیر
سَوگند اور گواه کی حاجت نہیں مجھے

میں کون، اور ریختہ، ہاں اِس سے مدعا
جُز انبساطِ خاطرِ حضرت نہیں مجھے

سِہرا لکھا گیا زرهِ امتثالِ اَمر
دیکھا کہ چاره غیر اطاعت نہیں مجھے

مقطع میں آ پڑی ہے سُخن گُسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

رُوئے سُخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاه
سودا نہیں، جُنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے

قسمت بُری سہی پَہ طبیعت بُری نہیں
ہے شُکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے

صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ، خدا گواه
کہتا ہوں سچ کہ جُھوٹ کی عادت نہیں مجھے

Leave a Comment

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
اک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال

ہر آنگن میں آئے تیرے اجلے روپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال

بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے یہ ہرنی سی چال

کتنی سندر نار ہو کوئی میں آواز نہ دوں
تجھ سا جس کا نام نہیں ہے وہ جی کا جنجال

سامنے تو آئے تو دھڑکیں مل کر لاکھوں دل
اب جانا دھرتی پر کیسے آتے ہیں بھونچال

بیچ میں رنگ محل ہے تیرا کھائی چاروں اور
ہم سے ملنے کی اب گوری تو ہی راہ نکال

کر سکتے ہیں چاہ تری اب سرمدؔ یا منصورؔ
ملے کسی کو دار یہاں اور کھنچے کسی کی کھال

یہ دنیا ہے خود غرضوں کی لیکن یار قتیلؔ
تو نے ہمارا ساتھ دیا تو جیے ہزاروں سال

Leave a Comment

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے
کر دیا ہو نہ کہیں تُو نے فراموش مجھے

تیری آنکھوں کا یہ میخانہ سلامت ساقی
مست رکھتا ہے ترا بادہ ء سرجوش مجھے

ہچکیاں موت کی آنے لگیں اب تو آجا
اور کچھ دیر میں شاید نہ رہے ہوش مجھے

کب کا رسوا میرے اعمال مجھے کر دیتے
میری قسمت کہ ملا تجھ سا خطا پوش مجھے

کس کی آہٹ سے یہ سویا ہوا دل جاگ اُٹھا
کر دیا کس کی صدا نے ہمہ تن گوش مجھے

یاد کرتا رہا تسبیح کے دانوں پہ جسے
کردیا ہے اُسی ظالم نے فراموش مجھے

ایک دو جام سے نیت مری بھر جاتی تھی
تری آنکھوں نے بنایا ہے بلانوش مجھے

جیتے جی مجھ کو سمجھتے تھے جو اک بارِ گراں
قبر تک لے کے گئے وہ بھی سرِ دوش مجھے

مجھ پہ کُھلنے نہیں دیتا وہ حقیقت میری
حجلہ ء ذات میں رکھتا ہے وہ رُو پوش مجھے

صحبتِ میکدہ یاد آئے گی سب کو برسوں
نام لے لے کے مرا روئیں گے مے نوش مجھے

بُوئے گُل مانگنے آئے مرے ہونٹوں سے مہک
چومنے کو ترے مل جائیں جو پاپوش مجھے

زندگی کے غم و آلام کا مارا تھا میں
ماں کی آغوش لگی قبر کی آغوش مجھے

دے بھی سکتاہوں نصیر اینٹ کا پتھر سے جواب
وہ تو رکھا ہے مرے ظرف نے خاموش مجھے

Leave a Comment
%d bloggers like this: