مِرےدِل کےبَست وکُشاد میں یہ نمُودکیسی نمُوکی ہے
کبھی ایک دجلہ ہےخُون کا،کبھی ایک بُوندلہُو کی ہے
کبھی چاکِ خوُں سے چِپک گیا ، کبھی خار خار پُرو لِیا
مِرےبخیہ گرنہ ہُوں مُعترض،کہ یہ شکل بھی تورفوُکی ہے
نہ بہار اُن کی بہار ہے، نہ وہ آشیاں کے، نہ وہ باغ کے !
جنھیں ذکر،قیدوقفس کاہے،جنھیں فکر،طوق وگلُوکی ہے
یہی رہگُزر ہے بہار کی، یہی راستہ ہے بہار کا
یہ چمن سےتا بہ دَرِقفَس،جولکِیرمیرےلہُوکی ہے
نہ جنوُں، نہ شورِجنوُں رہا،تِرےوحشیوں کوہُواہےکیا
یہ فِضائے دہر تو مُنتظر ، فقط ایک نعرۂ ہُو کی ہے
ہمیں عُمربھربھی نہ مِل سکی،کبھی اِک گھڑی بھی سُکون کی
دلِ زخم زخم میں چارہ گر! کوئی اِک جگہ بھی رفو کی ہے ؟
تِری چشمِ مَست نے ساقیا! وہ نظامِ کیف بَدل دِیا
مگرآج بھی سَرِمیکدہ،وہی رسم جام وسبُوکی ہے
میں ہزارسوختہ جاں سہی، مِرےلب پہ لاکھ فُغاں سہی
نہ ہونااُمیدابھی عِشق سے،ابھی دِل میں بوندلہُوکی ہے
ابھی رِندہے، ابھی پارسا، تجھے تابش آج ہُوا ہے کیا ؟
کبھی جستجُومئےوجام کی،کبھی فکرآب ووضُوکی ہے.