فتنہ پرداز ، دغا باز ، فسوں گر ، عیار
ہائےافسوس دل آیا بھی تو آیا کس پر
داغ دہلوی
Leave a CommentThis Category will contain all sad poetry
پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا
اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا
فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا
گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا
میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا
تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں
جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمہیں علم نہیں
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا
اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
عہدِ گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو؟
ایک آوارۂ منزل کو ستاتی کیوں ہو؟
وہ حسیں عہد جو شرمندۂ ایفا نہ ہوا
اس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو
زندگی شعلۂ بے باک بنا لو اپنی
خود کو خاکسترِ خاموش بناتی کیوں ہو
میں تصوّف کے مراحل کا نہیں ہوں قائل
میری تصویر پہ تم پھول چڑھاتی کیوں ہو؟
کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو؟
ایک سرکش سے محبت کی تمنّا رکھ کر
خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو
میں سمجھتا ہوں تقدّس کو تمدّن کا فریب!
تم رسومات کو ایمان بناتی کیوں ہو؟
جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر مری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو؟
تم میں ہمّت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو ؟
اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے
حشر کے دن کا غلغلہ، شہر کے بام و دَر میں تھا
نگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے
اب کے برس بہار کی، رُت بھی تھی اِنتظار کی
لہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب تھے
خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے!
سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی، کیسے عجب سحاب تھے!
عمر اسی تضاد میں، رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے، آنکھیں تھیں اور خواب تھے
صبح ہوئی تو شہر کے، شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے
آنکھوں میں خون بھر گئے، رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے، ایسے بھی انقلاب تھے
ساتھ وہ ایک رات کا، چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا، پھر نہ وہ اجتناب تھے
ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے
اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دھُل گئے
آنکھ میں رُو نما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے
درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں
چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے
اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں
اب تذکرہء خندۂ گل بار ہے جی پر
جاں وقفِ غمِ گریۂ شبنم ہے مری جاں
رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب
تصویر پریشانیٔ عالم ہے مری جاں
یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت
یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پرنم ہے مری جاں
ہم سادہ دلوں پر یہ شبِ غم کا تسلط
مایوس نہ ہو اور کوئی دَم ہے مری جاں
یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں
اے نزہتِ مہتاب ترا غم ہے مری زیست
اے نازشِ خورشید ترا غم ہے مری جاں
یادوں کی شال اوڑھ کے آوارہ گردیاں
یوں بھی کاٹی ہیں ہم نے دسمبر کی سردیاں
آسماں سے بھی ہم اتارے گئے
اور زمیں پر بھی کب سنوارے گئے
جیسے کٹتی ہیں ہجر کی راتیں
زیست ہم تجھ سے یوں گزارے گئے
بے رخی تک نہ بات پہنچی تھی
ہم عنایات میں ہی مارے گئے
جن کی خاطر پچھاڑا طوفاں کو
سب سے پہلے وہی کنارے گئے
ہم نے مڑ کر تمہی کو ڈھونڈا ہے
جب جہاں جس گھڑی پکارے گئے
نہ جگہ تھی ہماری جس دل میں
ہم اسی دل میں کیوں اتارے گئے
بولو وہ کیا کریں بصارت کا
جن کی آنکھوں کے سب نظارے گئے
جینا آسان ہو گیا تیرا
جب سے ابرک ترے سہارے گئے
اتباف ابرک
Leave a Commentغرورِنار میرے پاؤں میں پڑا ہوا تھا
میں خاک تھا سو میرا مرتبہ بڑا ہوا تھا
میں چاہتا تھا بتا دوں کہ دیوتا نہیں مَیں
مگر وہ حُسن مِرے نور سے ڈرا ہوا تھا
میں چاہتا تو زبانیں خاموش کر دیتا
مگر میں چپ تھا تیرے حکم پر رکا ہوا تھا
رحیم دن تھے،شفق دھوپ تھی،سجل شامیں
اِنھی دنوں میں مِرا تجھ سے رابطہ ہوا تھا
سو مَیں نے بات بدل دی گلے لگا کے اُسے
دُرست شخص غلط بات پر اڑا ہوا تھا
میرے خلاف تیرے کان کیوں نا بھرتے یہ لوگ
تیری جبیں پہ میرا نام جو لکھا ہوا تھا
سو ماں کی قبر پہ پہنچا لپٹ کے رونے لگا
دلیر بیٹا کسی بات پر دکھا ہوا تھا
ہم ایک ساتھ تھے اور اپنی اپنی نیند میں تھے
وہ سو رہی تھی علی اور میں۔۔۔ مرا ہوا تھا