باغِ جنت میں سب برابر تھے
پر یہاں نیک و بد میں رہنا پڑا
اولاً ٹوٹ کر محبت کی
پھر مجھے اپنی حد میں رہنا پڑا
صائمہ آفتاب
Leave a CommentThis Category will contain all sad poetry
باغِ جنت میں سب برابر تھے
پر یہاں نیک و بد میں رہنا پڑا
اولاً ٹوٹ کر محبت کی
پھر مجھے اپنی حد میں رہنا پڑا
صائمہ آفتاب
Leave a Commentیہ سمندر ہے، کنارے ہی کنارے جاؤ
عِشق ہر شخص کے بس کا نہیں پیارے، جاؤ
یُوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آؤ اُس وقت ،کہ جِس وقت پُکارے جاؤ
دِل کی بازی لگے، پھر جان کی بازی لگ جائے
عِشق میں ہار کے بیٹھو نہیں ، ہارے جاؤ
کام بن جائے، اگر زُلفِ جنُوں بن جائے!
اِس لیے ،اِس کو سنوارو کہ سنوارے جاؤ
کوئی رستہ کوئی منزِل اُسے دشوار نہیں
جِس جگہ جاؤ محبّت کے سہارے جاؤ
ہم تو مٹّی سے اُگائیں گے محبّت کے گُلاب
تم اگر توڑنے جاتے ہو سِتارے ،جاؤ
ڈُوبنا ہو گا ، اگر ڈُوبنا تقدیر میں ہے
چاہے کشتی پہ رہو، چاہے کنارے جاؤ
تم ہی سوچو، بَھلا یہ شوق کوئی شوق ہُوا!
آج اُونچائی پہ بیٹھو، کل اُتارے جاؤ
موت سے کھیل کے ،کرتے ہو محبّت، عاجزؔ
مُجھ کو ڈر ہے، کہیں بے موت نہ مارے جاؤ
کلیم عاجز
Leave a Commentرقصِ وحشت شعار ہے میرا
گردِ صحرا غبار ہے میرا
کوئی زنجیرِ پا نہیں لیکن
قیدیوں میں شمار ہے میرا
جل رہے ہیں ضرورتوں کے چراغ
گھر نہیں ہے مزار ہے میرا
زخم اپنے کرید سکتا ہوں
جبر پر اختیار ہے میرا
جس طرف چاہوں گھوم لیتا ہوں
میری ایڑی مدار ہے میرا
ہے سبک دوش کوئی مجھ ایسا؟
میرے شانوں پہ بار ہے میرا
کُھل کے اک سانس بھی نہ لی میں نے
زندگی پر ادھار ہے میرا
بھاگتا ہوں پرے حقیقت سے
شعر گوئی فرار ہے میرا
پیرہن ہے دُھلا ہوا گویا
تن بہت داغ دار ہے میرا
ورنہ میں کب کا مر چکا ہوتا
دل پہ کب انحصار ہے میرا
آئینے میں بھی مَیں نہیں موجود
اور تجھے انتظار ہے میرا
سوچتا ہوں، دوبارہ سوچتا ہوں
کوئی پروردگار ہے میرا؟
میں ہوں مزدورِ کارِ رشتہ و ربط
ہر کوئی ٹھیکہ دار ہے میرا
شعر کہتا ہوں جی جلاتا ہوں
اب یہی روزگار ہے میرا
رائیگانی خرید کرتا ہوں
منفرد کاروبار ہے میرا
عارف امام
Leave a Commentﮐﯿﺴﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﮮ ﮐﻮﺋﯽ
ﺩﮐﮫ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﺮجمہ ﮐﺮﮮ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺭﻧﮓ ﺳﯽ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ ﮐﻮﺋﯽ
وە گماں ! گماں سا قیاس سا
کبھی دور سا کبھی پاس سا
کبھی چاندنی میں چھپا ہوا
کبھی خوشبووں میں بسا ہوا
کبھی صرف اسکی شباہتیں
کبھی صرف اسکی حکایتیں
کبھی صرف ملنے کے سلسلے
کبھی صرف اس سے ہیں فاصلے
کبھی دور چلتی ہواوُں میں
کبھی مینہ برستی گھٹاوں میں
کبھی بدگماں کبھی مہرباں
کبھی دھوپ ہے کبھی سائیباں
کبھی بند دل کی کتاب میں
کبھی لب کشاں وە خواب میں
کبھی یوں کہ جیسے سوال ہو
کبھی یوں کہ جیسے جواب ہو
کبھی دیکھنے کے ہیں سلسلے
کبھی سوچنے کے ہیں مرحلے
کبھی صرف رنگِ بہار سا
کبھی صرف اک گلبہار سا
وە جو اکھڑا اکھڑا سا شخص ہے
وە جو بکھرا بکھرا سا شخص ہے
عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھی
وہ اک پری جو مجھے سبز کرنے آئی تھی
وہ اک چراغ کدہ جس میں کچھ نہیں تھا مرا
جو جل رہی تھی وہ قندیل بھی پرائی تھی
نہ جانے کتنے پرندوں نے اس میں شرکت کی
کل ایک پیڑ کی تقریب رو نمائی تھی
ہواؤ آؤ مرے گاؤں کی طرف دیکھو
جہاں یہ ریت ہے پہلے یہاں ترائی تھی
کسی سپاہ نے خیمے لگا دیے ہیں وہاں
جہاں پہ میں نے نشانی تری دبائی تھی
گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے
مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی
تہذیب حافی
Leave a Commentمرے عزیز کبھی خوش نہیں ہوئے مجھ سے
تمہیں بھی میری محبت سے مسئلہ رہے گا
وہ میرے پیار کو ٹھکرا کے کہہ رہا ہے مجھے
تم اچھے بندے ہو سو تم سے رابطہ رہے گا
خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم
پانی چھلنی میں لے چلے ہیں ہم
چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں
دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم
خود ہیں آپنے سفر کی دشواری
آپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم
تو تو مت کہہ ہمیں برا دنیا
تو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم
میں لاکھ ملامت سہہ کر بھی ، ترے ساتھ رہا ترا یار رہا
میں نے مُڑ کے نہیں دیکھا اُس کو، تجھے جس جس سے انکار رہا
جو لفظ کا پیشہ کرتے تھے ، مصروف رہے مشہور ہوئے
! تری یاد مِری مزدوری تھی ! میں جیون بھر بیکار رہا