Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

یہ سمندر ہے، کنارے ہی کنارے جاؤ

یہ سمندر ہے، کنارے ہی کنارے جاؤ
عِشق ہر شخص کے بس کا نہیں پیارے، جاؤ

یُوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آؤ اُس وقت ،کہ جِس وقت پُکارے جاؤ

دِل کی بازی لگے، پھر جان کی بازی لگ جائے
عِشق میں ہار کے بیٹھو نہیں ، ہارے جاؤ

کام بن جائے، اگر زُلفِ جنُوں بن جائے!
اِس لیے ،اِس کو سنوارو کہ سنوارے جاؤ

کوئی رستہ کوئی منزِل اُسے دشوار نہیں
جِس جگہ جاؤ محبّت کے سہارے جاؤ

ہم تو مٹّی سے اُگائیں گے محبّت کے گُلاب
تم اگر توڑنے جاتے ہو سِتارے ،جاؤ

ڈُوبنا ہو گا ، اگر ڈُوبنا تقدیر میں ہے
چاہے کشتی پہ رہو، چاہے کنارے جاؤ

تم ہی سوچو، بَھلا یہ شوق کوئی شوق ہُوا!
آج اُونچائی پہ بیٹھو، کل اُتارے جاؤ

موت سے کھیل کے ،کرتے ہو محبّت، عاجزؔ
مُجھ کو ڈر ہے، کہیں بے موت نہ مارے جاؤ

کلیم عاجز

Leave a Comment

رقصِ وحشت شعار ہے میرا

رقصِ وحشت شعار ہے میرا
گردِ صحرا غبار ہے میرا

کوئی زنجیرِ پا نہیں لیکن
قیدیوں میں شمار ہے میرا

جل رہے ہیں ضرورتوں کے چراغ
گھر نہیں ہے مزار ہے میرا

زخم اپنے کرید سکتا ہوں
جبر پر اختیار ہے میرا

جس طرف چاہوں گھوم لیتا ہوں
میری ایڑی مدار ہے میرا

ہے سبک دوش کوئی مجھ ایسا؟
میرے شانوں پہ بار ہے میرا

کُھل کے اک سانس بھی نہ لی میں نے
زندگی پر ادھار ہے میرا

بھاگتا ہوں پرے حقیقت سے
شعر گوئی فرار ہے میرا

پیرہن ہے دُھلا ہوا گویا
تن بہت داغ دار ہے میرا

ورنہ میں کب کا مر چکا ہوتا
دل پہ کب انحصار ہے میرا

آئینے میں بھی مَیں نہیں موجود
اور تجھے انتظار ہے میرا

سوچتا ہوں، دوبارہ سوچتا ہوں
کوئی پروردگار ہے میرا؟

میں ہوں مزدورِ کارِ رشتہ و ربط
ہر کوئی ٹھیکہ دار ہے میرا

شعر کہتا ہوں جی جلاتا ہوں
اب یہی روزگار ہے میرا

رائیگانی خرید کرتا ہوں
منفرد کاروبار ہے میرا

عارف امام

Leave a Comment

وە گماں ! گماں سا قیاس سا

وە گماں ! گماں سا قیاس سا
کبھی دور سا کبھی پاس سا

کبھی چاندنی میں چھپا ہوا
کبھی خوشبووں میں بسا ہوا

کبھی صرف اسکی شباہتیں
کبھی صرف اسکی حکایتیں

کبھی صرف ملنے کے سلسلے
کبھی صرف اس سے ہیں فاصلے

کبھی دور چلتی ہواوُں میں
کبھی مینہ برستی گھٹاوں میں

کبھی بدگماں کبھی مہرباں
کبھی دھوپ ہے کبھی سائیباں

کبھی بند دل کی کتاب میں
کبھی لب کشاں وە خواب میں

کبھی یوں کہ جیسے سوال ہو
کبھی یوں کہ جیسے جواب ہو

کبھی دیکھنے کے ہیں سلسلے
کبھی سوچنے کے ہیں مرحلے

کبھی صرف رنگِ بہار سا
کبھی صرف اک گلبہار سا

وە جو اکھڑا اکھڑا سا شخص ہے
وە جو بکھرا بکھرا سا شخص ہے

Leave a Comment

آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا

آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا
کیا کہوں ، اور کہنے کو کیا رہ گیا

ان کی آنکھوں سے کیسے چھلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا رہ گیا

ایسے بچھڑے سبھی رات کے موڑ پر
آخری ہمسفر — راستہ رہ گیا

سوچ کر آؤ ، کوئے تمنا گلی
جان من ! جو یہاں، رہ گیا ۔۔۔رہ گیا

وسیم بریلوی

Leave a Comment

عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھی

عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھی
وہ اک پری جو مجھے سبز کرنے آئی تھی

وہ اک چراغ کدہ جس میں کچھ نہیں تھا مرا
جو جل رہی تھی وہ قندیل بھی پرائی تھی

نہ جانے کتنے پرندوں نے اس میں شرکت کی
کل ایک پیڑ کی تقریب رو نمائی تھی

ہواؤ آؤ مرے گاؤں کی طرف دیکھو
جہاں یہ ریت ہے پہلے یہاں ترائی تھی

کسی سپاہ نے خیمے لگا دیے ہیں وہاں
جہاں پہ میں نے نشانی تری دبائی تھی

گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے
مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی

تہذیب حافی

Leave a Comment

‏خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم

‏خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم
پانی چھلنی میں لے چلے ہیں ہم

چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں
دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم

خود ہیں آپنے سفر کی دشواری
آپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم

تو تو مت کہہ ہمیں برا دنیا
تو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم

Leave a Comment

میں لاکھ ملامت سہہ کر بھی

میں لاکھ ملامت سہہ کر بھی ، ترے ساتھ رہا ترا یار رہا
میں نے مُڑ کے نہیں دیکھا اُس کو، تجھے جس جس سے انکار رہا

جو لفظ کا پیشہ کرتے تھے ، مصروف رہے مشہور ہوئے
! تری یاد مِری مزدوری تھی ! میں جیون بھر بیکار رہا

Leave a Comment
%d bloggers like this: