Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

وقت کی عُمر کیا بڑی ہوگی

وقت کی عُمر کیا بڑی ہوگی
اک تیرے وصل کی گھڑی ہوگی

دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہوگی

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی ایک پنکھڑی ہوگی

زُلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہوگی

اے عدم کے مسافرو! ھوشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی

کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اَڑی ہوگی

اِلتجا کا مَلال کیا کیجیۓ..؟
اُن کے در پر کہیں پڑی ہوگی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی

Leave a Comment

دل کی مشکل کا مستقل حل ہو

دل کی مشکل کا مستقل حل ہو
وصل ہو ، ہجر ہو ، مکمل ہو

دل یا دنیا کی، جس کی مانتا ہوں
دوسرا چیختا ہے…… پاگل ہو

کاہے کہتے ہیں اس کو تنہائی
پاس ہی جب کوئی مسلسل ہو

ہے جو وارفتگی خیالوں میں
روبرو بھی تو ایسا اک پل ہو

کبھی ہم پر بھی آئے وہ موسم
آنکھ یہ آنکھ ہو، نہ بادل ہو

کچھ تو ابرک کبھی لکھو ایسا
پڑھنے والوں کا دل نہ بوجھل ہو

پوچھئے ان سے ڈوبنے کا مزا
جن کے قدموں کے نیچے ساحل ہو

جس کی آنکھوں نے تجھ کو دیکھ لیا
تجھ سے کم پر وہ کیسے قائل ہو

دو سے بنتی نہیں کہانی کوئی
تیسرا جب تلک نہ حائل ہو

یہ بھی لازم نہیں محبت کا
اب کوئی تیسرا ہی قاتل ہو

آپ اچھے ہیں سب سے اچھے ہیں
کیجئے کیا جو دل نہ مائلِ ہو

اس سفر کو مرا خدا حافظ
جس کی منزل نہ میری منزل ہو

اتباف ابرک

Leave a Comment

گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو


گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو
کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو

میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں
جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو

کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو

قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو تمہارا ہو

یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا
کہیں ہوا کا ہی اس نے نہ روپ دھارا ہو

افق تو کیا ہے در کہکشاں بھی چھو آئیں
مسافروں کو اگر چاند کا اشارا ہو

میں اپنے حصے کے سکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو

اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے
وہ چاہے نظم کا ٹکڑا کہ نثر پارہ ہو

پروین شاکر

Leave a Comment

رات کی بھیگی پلکوں پر

رات کی بھیگی پلکوں پر جب اشک ہمارے ہنستے ہیں
سناٹوں کے سانپ دلوں کی تنہائی کو ڈستے ہیں

کل تک مے خانے میں جن کے نام کا سکہ چلتا تھا
قطرہ قطرہ مے کی خاطر آج وہ لوگ ترستے ہیں

اے میرے مجروح تبسّم! روپ نگر کی ریت نہ پوچھ
جن کے سینوں میں پتھر ہیں ان پر پھول برستے ہیں

شہرِ ہوس کے سودائی خود جن کی روحیں ننگی ہیں
میرے تن کی عریانی پر آوازے کیوں کستے ہیں

چھین سکے گا کون صبا سے لمس ہماری سانسوں کا
ہم پھولوں کی خوشبو بن کر گلزاروں میں بستے ہیں

اشکوں کی قیمت کیا جانیں پیار کے جھوٹے سوداگر
ان سیال نگینوں سے تو ہیرے موتی سستے ہیں

کون آئے گا ننگے پیروں شمع جلا کر شام ڈھلے
پریم!! محبت کی منزل کے بڑے بھیانک رستے ہیں

Leave a Comment

گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا

گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا

دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا

ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کف دل دار پر اچھا لگا

کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا

ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا

اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا

میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا

احمد فراز

Leave a Comment

مرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

مرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نظر سے مے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

ہوئیں جلوہ گر بہاریں کھلے گل چمن میں ، لیکن
وہ جو آ کے مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی

مرا انجمن میں جانا کوئی اور رنگ لاتا
مجھے آپ خود بلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

انہیں کیا یہ بات سوجھی مجھے کس لیے مٹایا
غمِ آرزو مٹاتے تو کچھ اور بات ہوتی

دمِ نزع لے کے پہنچا ہے پیام ان کا قاصد
وہ جو آپ چل کے آتے تو کچھ اور بات ہوتی

کئی بار ہاتھ مجھ سے وہ ملا چکے ہیں، لیکن
جو نصیر ،دل ملاتے تو کچھ اور بات ہوتی

پیر سیدنصیر الدین نصیر رح

Leave a Comment

میرے کشکول میں بس سکۂ رد ہے حد ہے

میرے کشکول میں بس سکۂ رد ہے حد ہے
پھر بھی یہ دل مرا راضی بہ مدد ہے حد ہے

غم تو ہیں بخت کے بازار میں موجود بہت
کاسۂ جسم میں دل ایک عدد ہے حد ہے

آج کے دور کا انسان عجب ہے یا رب
لب پہ تعریف ہے سینے میں حسد ہے حد ہے

تھا مری پشت پہ سورج تو یہ احساس ہوا
مجھ سے اونچا تو مرے سائے کا قد ہے حد ہے

مستند معتمد دل نہیں اب کوئی یہاں
محرم راز بھی محروم سند ہے حد ہے

میں تو تصویر جنوں بن گیا ہوتا لیکن
مجھ کو روکے ہوئے بس پاس خرد ہے حد ہے

رنگ اخلاص بھروں کیسے مراسم میں ندیمؔ
اس کی نیت بھی مری طرح سے بد ہے حد ہے

Leave a Comment
%d bloggers like this: