Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کے لئے
آ پڑے مشکل تو نظریں بھی چرا لیتے ہیں لوگ

خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ

ہے بجا ان کی شکائت لیکن اس کا کیا علاج
بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرا لیتے ہیں لوگ

ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کے لئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ

اس قدر نفرت ہے ان کو تیرگی کے نام سے
روزِ روشن میں بھی اب شمعیں جلا لیتے ہیں لوگ

یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھا لیتے ہیں لوگ

روشنی ہے ان کا ایماں روک مت ان کو قتیل
دل جلاتے ہیں یہ اپنا تیرا کیا لیتے ہیں لوگ۔

قتیل شفائی

Leave a Comment

غـــــــــمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عـــــام تک نہ پہنچے

غـــــــــمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عـــــام تک نہ پہنچے
مُجھے خَـوف ہے یہ تہمت مِــــــرے نام تک نہ پہنچے

میں نظـــــر سے پی رہا تھا تو یہ دِل نے بَد دُعـــــا دی
تیرا ہاتھ زِنــــدگی بھـــر کبھی جــــــام تک نہ پہنچے

وہ نَوائے مُضمحل کیا نہ ہو جس میں دِل کی دَھـڑکن
وہ صَـــــــــدائے اہلِ دل کیا جو عــــوام تک نہ پہنچے

مِـــــرے طــــائرِ نَفَس کــــــو نہیں باغباں سے رَنجِش
مِلے گھـــــــــر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے

نئی صبح پر نظــــــــــــــــــر ہے، مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحـــــــر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

یہ ادائے بے نیـــــازی تجھے بے وَفـــــــــــــا مُبــــــارک
مگـــر ایسی بے رُخی کیا کہ سَـــــــــلام تک نہ پہنچے

جو نقابِ رُخ اُٹھـــــا دی تو یہ قیــــــــــد بھی لگا دی
اُٹھے ہر نگاہ لیکن کـــــــــــــــــــوئی بام تک نہ پہنچے

انہیں اپنے دِل کی خبــریں، مِرے دِل سے مِل رہی ہیں
میں جو اُن سے رُوٹھ جــــــاؤں تو پَیام تک نہ پہنچے

وہی اِک خموش نغمــہ، ہے شکیل جــــــــــــــانِ ہستی
جـــــــــو زبان پـر نـہ آئے، جـــــــو کلام تک نہ پہنچے

Leave a Comment

مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا

مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا،تو نے
کیوں خرد مند بنایا،نہ بنایا ہوتا

خاکساری کے لیے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش خاک درِ جانانہ بنایا ہوتا

تشنہ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا

دلِ صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن
زلفِ مشکیں کا تیرے شانہ بنایا ہوتا

شُعلہٕ حسن چمن میں نہ دکھایا اُس نے
ورنہ بُل بُل کو بھی پروانہ بنایا ہوتا

روز معمورہٕ دنیا میں خرابی ہے ظفر
ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا

بہادر شاہ ظفر

Leave a Comment

عشق میں صبر کارگر نہ ہوا

عشق میں صبر کارگر نہ ہوا
آہ کی ، آہ میں اثر نہ ہُوا

نخلِ اُمّید باروٙر نہ ہوا
جو نہ ہونا تھا، عمر بھر نہ ہُوا

اِتنا آساں نہیں کسی پہ کرم
آپ شرمائیں گے، اگر نہ ہُوا

ہم ہوئے لاکھ سب سے بیگانے
وہ نہ اپنا ہوا، مگر نہ ہُوا

جس طرف انتظار میں ہم تھے
اُس طرف آپ کا گزر نہ ہُوا

غیر گھر کر گیا تیرے دل میں
اک میرا تیرے دل میں گھر نہ ہُوا

ہم وفا کر کے بےوفا ٹھہرے
کوئی الزام تیرے سٙر نہ ہُوا

میرے حالات سے نصیرؔ اب تک
باخبر، حُسنِ بے خبر نہ ہُوا

پِیر نصیر الدّین نصیرؔ

Leave a Comment

پانچ دس پیسے، چار آنے تھے

پانچ دس پیسے، چار آنے تھے
وہ زمانے بھی کیا زمانے تھے

جیب میں ہوں گے ایک دن سو بھی
اُن دنوں خواب یہ سہانے تھے

آمدن کے لئے قلم کاپی
کارگر ، مستند بہانے تھے

یار، بوتل، کباب اور قلفی
کبھی قارون کے خزانے تھے

عید کا انتظار رہتا تھا
سکے جیبوں میں کھنکھنانے تھے

کتنی سستی تھیں وہ سبھی خوشیاں
کیا حسیں وقت وہ پرانے تھے

آج پیسہ ہے عقل اور دانش
کل تلک لوگ ہی سیانے تھے

کل میسر تھے مفت جو منظر
اب وہ لاکھوں میں بھی نہ آنے تھے

ہم نے بچپن کو ساتھ یوں رکھا
عمرِ دوراں کے غم بھلانے تھے

خوب پچھلی صدی تھی وہ ابرک
جو تعلق تھے سولہ آنے تھے

اتباف ابرک

Leave a Comment

نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں

نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں

کیا خبر کب کسی انسان پہ چھت آن گرے
قریۂ سنگ ہے اور کانچ کی تعمیریں ہیں

لُٹ گئے مفت میں دونوں، تری دولت مرا دل
اے سخی! تیری مری ایک سی تقدیریں ہیں

کوئی افواہ گلا کاٹ نہ ڈالے اپنا
یہ زبانیں ہیں کہ چلتی ہوئی شمشیریں ہیں

اب کے عشاق کی یہ زندہ دلی بھی دیکھو
ہجر کے دن ہیں مگر وصل کی تدبیریں ہیں

ہم جو ناخواندہ نہیں ہیں تو چلو آؤ پڑھیں
وہ جو دیوار پہ لکھی ہوئی تحریریں ہیں

ہو نہ ہو یہ کوئی سچ بولنے والا ہے قتیلؔ
جس کے ہاتھوں میں قلم پاؤں میں زنجیریں ہیں

قتیل شفائی

Leave a Comment

وہ لڑکی دُکھوں کی ماری ہو سکتی ہے

وہ لڑکی دُکھوں کی ماری ہو سکتی ہے
ورنہ وہ تو اور بھی پیاری ہو سکتی ہے

تیرے جانے پر میں جی تو سکتا ہوں
پر جینے میں دشواری ہو سکتی ہے

گھر کی باتیں باہر لے جا سکتے ہیں
گھر کے اندر دنیا داری ہو سکتی ہے

دیکھ ! دوپٹہ لے کر گھر سے نکلا کر
دیکھ ! ہوس تو سب پہ طاری ہو سکتی ہے

ایک شکل پہ کتنے چہرے ہو سکتے ہیں
ایک محبت کتنی باری ہو سکتی ہے

ان آنکھوں میں تھوڑا کاجل ڈالا کر
اِن میں تھوڑی اور خماری ہو سکتی ہے

ہجر مجھے بھی موت عطا کر سکتا ہے
اُس کو بھی تو یہ بیماری ہو سکتی ہے

Leave a Comment

حُسن ، مرھُون جوش بادۂ ناز

حُسن ، مرھُون جوش بادۂ ناز
عشق ، منت کشِ فسُون نیاز

دل کا ھر تار ، لرزشِ پیہم
جاں کا ھر رشتہ ، وقفِ سوز و گداز

سوزش دردِ دِل ، کسے معلوم
کون جانے ، کسی کے عشق کا راز

میری خاموشیوں میں ، لرزاں ھے
میرے نالوں کی ، گم شدہ آواز

ھو چکا عشق ، اب ھوس ھی سہی
کیا کریں ، فرض ھے ادائے نماز

تُو ھے ، اور اِک تغافل پیہم
میں ھُوں ، اور انتظار بے انداز

خوفِ ناکامئ اُمید ھے ، فیضؔ
ورنہ ، دِل توڑ دے طلسم مجاز

“فیض احمّد فیض”

Leave a Comment

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی

سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے
دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی

بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی

وہ بھی سر مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد
اور واقف احوال عدالت بھی بہت تھی

اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی

خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی

Leave a Comment

آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا

آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا
کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا

ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا

دشمنوں نے شست باندھی خیمۂ امید پر
دوستوں نے درۂ امکان خالی کر دیا

بانٹنے نکلا ہے وہ پھولوں کے تحفے شہر میں
اس خبر پر ہم نے بھی گلدان خالی کر دیا

لے گیا وہ ساتھ اپنے دل کی ساری رونقیں
کس قدر یہ شہر تھا گنجان خالی کر دیا

ساری چڑیاں اڑ گئیں مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
میرے گھر کا صحن اور دالان خالی کر دیا

ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا

اعتبارساجد

Leave a Comment
%d bloggers like this: