Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

کیا عشق تھا جو باعث رسوائی بن گیا

کیا عشق تھا جو باعث رسوائی بن گیا
یارو تمام شہر تماشائی بن گیا

بن مانگے مل گئے مری آنکھوں کو رت جگے
میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا

دیکھا جو اس کا دست حنائی قریب سے
احساس گونجتی ہوئی شہنائی بن گیا

برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہ شناسائی بن گیا

پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق
صحرا سمٹ کے گوشۂ تنہائی بن گیا

تھا بے قرار وہ مرے آنے سے پیشتر
دیکھا مجھے تو پیکر دانائی بن گیا

کرتا رہا جو روز مجھے اس سے بدگماں
وہ شخص بھی اب اس کا تمنائی بن گیا

وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا

قتیل شفائی

Leave a Comment

یُوں جمالِ روئے جاناں شمعِ خلوت خانہ تھا

یُوں جمالِ روئے جاناں شمعِ خلوت خانہ تھا
دل ہمارا غرقِ آتش صورتِ پروانہ تھا

اک جمالِ بے تکیُف جلوہء جانانہ تھا
آنکھ جس جانب اٹھی ، ہر ذرّہ حیرت خانہ تھا

سوز سے خالی جگر تھا،غم سے دل بیگانہ تھا
عشق میں ہم نے وہ دیکھا جو کبھی دیکھا نہ تھا

جب حقیقت سے اٹھا پردہ تو یہ عُقدہ کُھلا
خواب تھا، وہمِ دوئی زخمِ خودی ،افسانہ تھا

وصل میں گنجائشِ اغیار اِتنی بھی نہ تھی
چشم و گوش و ہوش ہر اپنا وہاں بیگانہ تھا

لے کے ہم سے دین و دل ،عقل و خِرد بولا کوئی
یہ تو راہ و رسمِ اُلفت کا فقط بیعانا تھا

خانہء لیلیٰ میں تھے جنّت کے اسبابِ نِشاط
قیس کے حصّے میں تاحدِ نظر ویرانہ تھا

زندگی کے ہمسفر تھے نزع میں بھی دل کے پاس
بے کسی تھی ، یاس تھی ،ارمان تھے ، کیا کیا نہ تھا

وہ بھی کیا دن تھے کہ پیرِ میکدہ کے عِشق میں
یہ جبینِ شوق تھی، سنگِ درِ میخانہ تھا

فیصلہ دیتے ہوئے وہ بڑھ گئے حد سے نصؔیر
میں سزاوارِ سزا تو تھا ، مگر اتنا نہ تھا

پیر سید نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا

فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر
برنگ سبزۂ نورستہ پائمال کیا

رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی
سو اس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا

مری اب آنکھیں نہیں کھلتیں ضعف سے ہمدم
نہ کہہ کہ نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا

بہار رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو
چمن کو یمن قدم نے ترے نہال کیا

جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف
کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا

لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا

میرتقی میر

Leave a Comment

خوبصورتی کی حد ہے نہ حساب ہے

خوبصورتی کی حد ہے نہ حساب ہے
تُو گلاب ، تُو گلاب ، تُو گلاب ہے

چار سو کروڑ تتلیوں میں تُو مرا
اِنتخاب ، اِنتخاب ، اِنتخاب ہے

چودہویں کا چاند ، نصفِ دِن کا آفتاب
چندے آفتاب ، چندے ماہتاب ہے

خوشبو ، خوش بدن کی جگنو مست کر گئی
کہہ رہے ہیں یہ گلاب ، لاجواب ہے

ایک پل کو دیکھ لے ہمیں بھی پیار سے
یہ ثواب دَر ثواب دَر ثواب ہے

خواب میں بھی اُن کے آگے ایک نہ چلی
بولے جاگ جاؤ یہ ہمارا خواب ہے

دُھوپ میں جو مینہ برس پڑے تو جانئے
اَبر زُلفِ یار دیکھ آب آب ہے

عشق نے جہاں پہ لکھ دِیا تمام شد
حُسن کی کتاب کا وُہ پہلا باب ہے

حُسن کی نگاہ میں حیا کے سرخ پھول
آج کل کے دور میں یہ اِنقلاب ہے

قیس اُن نگاہوں میں چمک سی پیار کی
اِک نئی کتاب کا یہ اِنتساب ہے

شہزاد قیس

Leave a Comment

دل کو اک بات کہہ سنانی ہے

دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
ساری دنیا فقط کہانی ہے

تو میری جان داستان تھا کبھی
اب ترا نام داستانی ہے

سہہ چکے زخمِ التفات تیرا
اب تری یاد آزمانی ہے

اک طرف دل ہے، اک طرف دنیا
یہ کہانی بہت پرانی ہے

تھا سوال ان اداس آنکھوں کا
زندگی کیا نہیں گنوانی ہے

کیا بتاؤں میں اپنا پاسِ انا
میں نے ہنس ہنس کے ہار مانی ہے

ہوس انگیز ہے بدن میرا
ہائے میری ہوس کہ فانی ہے

روز مرہ ہے زندگی کا عجیب
رات ہے اور نیند آنی ہے

زندگی کس طرح گزاروں میں
مجھ کو روزی نہیں کمانی ہے

جون ایلیا

Leave a Comment

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے

کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں
کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل سے ملتا ہے

پس پردہ بھی لیلیٰ ہاتھ رکھ لیتی ہے آنکھوں پر
غبار ناتوان قیس جب محمل سے ملتا ہے

بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے

مجھے آتا ہے کیا کیا رشک وقت ذبح اس سے بھی
گلا جس دم لپٹ کر خنجر قاتل سے ملتا ہے

بظاہر با ادب یوں حضرت ناصح سے ملتا ہوں
مرید خاص جیسے مرشد کامل سے ملتا ہے

مثال گنج قاروں اہل حاجت سے نہیں چھپتا
جو ہوتا ہے سخی خود ڈھونڈ کر سائل سے ملتا ہے

جواب اس بات کا اس شوخ کو کیا دے سکے کوئی
جو دل لے کر کہے کم بخت تو کس دل سے ملتا ہے

چھپائے سے کوئی چھپتی ہے اپنے دل کی بیتابی
کہ ہر تار نفس اپنا رگ بسمل سے ملتا ہے

عدم کی جو حقیقت ہے وہ پوچھو اہل ہستی سے
مسافر کو تو منزل کا پتا منزل سے ملتا ہے

غضب ہے داغؔ کے دل سے تمہارا دل نہیں ملتا
تمہارا چاند سا چہرہ مہ کامل سے ملتا ہے

Leave a Comment

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا

تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا

مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات، عبوری بناؤں گا

تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں، بھوری بناؤں گا

جاری ہے اپنی ذات پہ تحقیق آج کل
میں بھی خلا پہ ایک تھیوری بناؤں گا

میں چاہ کر وہ شکل مکمل نہ کر سکا
اس کو بھی لگ رہا تھا ادھوری بناؤں گا

عمیرؔ نجمی

Leave a Comment
%d bloggers like this: