وجۂ تسکیں بھی ھے خیال اُس کا
حد سے بڑھ جائےتو , گراں بھی ھے
زندگی , جس کے دم سے ھے ناصرؔ
یاد اُس کی , عذاب_ِجاں بھی ھے
ناصر کاظمی
Leave a Commentthis will contains Qatat
وجۂ تسکیں بھی ھے خیال اُس کا
حد سے بڑھ جائےتو , گراں بھی ھے
زندگی , جس کے دم سے ھے ناصرؔ
یاد اُس کی , عذاب_ِجاں بھی ھے
ناصر کاظمی
Leave a Comment تُو میرے پاس نہ تھی ، پھر بھی سحر ھونے تک
تیرا ھر سانس ، میرے جِسم کو چُھو کر گزرا
قطرہ قطرہ ، تیرے دیدار کی شبنم ٹپکی.
لمحہ لمحہ ، تیری خوشبو سے مُعطر گزرا.
”ساحر لدھیانوی“
Leave a Comment مِٹا دو شوق سے آ کر ، مِٹا دو میری تربت کو
جو تم پر مٙر مٹا ہو اُس کا اِتنا بھی نشاں کیوں ہو
تیرے تیروں نے “بیدم” کو حیاتِ جاوداں بخشی
حیاتِ جاوداں کا نام مرگِ جاوداں کیوں ہو
یہ جُدائیوں کے رستے ، بڑی دُور تک گئے ھیں
جو گیا ، وہ پھر نہ آیا ، میری بات مان جاؤ
کسی بے وفا کی خاطر ، یہ جُنوں فراز کب تک؟؟
جو تُمھیں بھُلا چُکا ھے ، اُسے تم بھی بُھول جاؤ
“احمد فراز”
Leave a Comment وہ نظر بہم نہ پُہنچی ، کہ مُحیطِ حُسن کرتے
تیری دِید کے وسیلے ، خد وخال تک نہ پہنچے
کوئی یار جاں سے گزُرا ، کوئی ھوش سے نہ گزُرا
یہ ندیمِ یک دو ساغر ، میرے حال تک نہ پہنچے
“فیض احمد فیض”
Leave a Comment یادوں کے سمن زار سے ——آئی ہوئی خوشبو
دامن میں چھپا لائی ہے کیا تم بھی تو دیکھو
کچھ رات گئے روز جو——— آتی ہے فضا سے
ہر دل میں ہے اک زخم چھپا تم بھی تو دیکھو
یوں بچھڑنے کی وضاحت ہی نہیں کی اس نے
میں سمجھتا ہوں محبت ہی نہیں کی اس نے
میں کسی اور سے ملنے کے لئے آیا ہوں
میری اس بات پہ حیرت ہی نہیں کی اس نے
ہمارے ہاتھ میں اس کی لگام تھوڑی ہے
وہ ہمسفر ہے ہمارا غلام تھوڑی ہے
ہم اپنے آپ سے ملتے ہیں تو، سنورتے ہیں
کسی کے واسطے یہ اہتمام تھوڑی ہے
کسی بھی لفظ کا جادُو اَثر نہیں کرتا
وہ اپنے دل کی مجھے بھی خبر نہیں کرتا
بنا ہوا ہے بظاہر وہ بے تعلّق بھی
جو مجھ کو سوچے بِنا دن بسر نہیں کرتا
یہ نگائیں یہ اشارے یہ ادائیں توبہ
ان شرابوں کو سرعام لٹایا نہ کرو
شام گہری ہو تو کچھ حسین ہوتی ہے
سایہ زلف کو چہرے سے ہٹایا نہ کرو