Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

سوز کو ساز کیا, وَجد کو وِجدان کِیا

سوز کو ساز کیا, وَجد کو وِجدان کِیا
دل کو دالان کیا, یار کو مہـمان کیا

حُجرۂ جسم میں معمول کا سنّاٹا تھا
پھر کسی لمس کی آواز نے حیران کیا

دے دیا تیرے تصوّر کے تصرّف میں یہ دل
شمع فانُوس ہوئی, گُل کو گُلِستان کیا

تُو کبھی دے نہ سکا مجھ کو خُوشی کے آنسُو
میں نے سب کچھ تری مُسکان پہ قربان کیا

تجھ کو فُٹ پاتھ پہ شب زاد نظر آئیں گے
دن ڈھلے تُو نے خرابوں پہ اگر دھیان کیا

زندہ رہنے کا ہنر آ گیا آتے آتے
زخم کو پھول کیا, درد کو درمان کیا

آئے دن کرب و اذیّت سے یہاں مرتے رہے
ایک روز اصل میں پھر مَوت نے احسان کیا

مسئلہ ہجر کا پے چیدہ بہت تھا ‘احمدؔ
کلیہِ صبر نے قدرے اسے آسان کیا

احمدؔ نواز

Leave a Comment

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں

اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں

آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں غربت کے صحراؤں میں
جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں

ایسے ایسے درد ملے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو
بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں

جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہستی ہے
کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں

یوں نہ لٹی تھی گلیوں دولت اپنے اشکوں کی
روتے ہیں تو ہم کو اپنے غم خانے یاد آتے ہیں

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

حبیب جالب

Leave a Comment

جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئے

جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ میرے بام و در کو سجا گئے

یہ عجیب کھیل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پر آگئے

وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے

وہ چراغ ِجاں کبھی جس کی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بیوفائی کے وسوسے اسے چپکے چپکے بجھا گئے

وہ تھا چاند شام ِوصال کا کہ تھا روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گئے

یہ جو بندگان ِنیاز ہے یہ تمام ہیں وہ لشکری
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حضور میں آ گئے

تیری بے رخی کے دیار میں میں ہوا کے ساتھ ہَوا ہوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرہ گنوا گئے

تیرے وسوسوں کے فشار میں تیرا شرار ِرنگ اجڑ گیا
میری خواہشوں کے غبار میں میرے ماہ و سال ِوفا گئے

وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشتِ خواب میں دور تک کوئی باغ جیسے لگا گئے

میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آ گئے

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

بڑا بدتمیز ہُوں

راز کھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں
میں سچ جو بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اچھے بھلے شریفوں کے ظاہر کو چھوڑ کر
اندر کو پھولتا ہُوں….. بڑا بدتمیز ہُوں

حرکت تو دیکھو میری کہ عہدِ یزید میں
انصاف تولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اخلاقیات کا میں جنازہ نکال کر
لہجے ٹٹولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کس کی مجال ہے کہ کہے مُجھ کو بدتمیز
میں خُود ہی بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کر کے غمِ حیات کی تلخی کا میں نشہ
دن رات ڈولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

ہر ایک شعر میں حق سچ کی شکل میں
میں زہر گھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

Leave a Comment

آؤ ملواؤں تمہیں ایسے دکاں دار کے ساتھ

آؤ ملواؤں تمہیں ایسے دکاں دار کے ساتھ
جس کی بنتی ہی نہیں درہم و دینار کے ساتھ

ربط پھیکا ہو تو پهر کس کو مزہ دیتا ہے
کچھ ہوس بھی تو ملاؤ نہ ذرا پیار کے ساتھ

اب بھلا کیسے میں تفریق کروں گا ان میں
میرے اپنے بھی کھڑے ہو گئے اغیار کے ساتھ

پا بجولاں ہی چلے آئے ہو تم مقتل میں
رشتہ لگتا ہے مجھے تیرا کوئی دار کے ساتھ

کون رکھے گا ترے وصل کو ایسے جاناں
میں نے رکھا ہے ترا ہجر بہت پیار کے ساتھ

روشنی شہر کی گلیوں میں رہی رات منیر
چاند بیٹھا رہا لگ کر مری دیوار کے ساتھ

Leave a Comment

اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں

اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں

وہ ریزہ ریزہ مرے بدن میں اتر رہا ہے
میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھوں کو پی رہا ہوں

تری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا
مجھے تو لگتا ہے میں ترا دوست بھی رہا ہوں

کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر
کوئی بتائے میں مر چکا ہوں کہ جی رہا ہوں

کہاں ملے گی مثال میری ستمگری کی ؟
کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں

نہ پوچھ مجھ سے کہ شہر والوں کا حال کیا تھا
کہ میں تو خود اپنے گھر میں بھی دو گھڑی رہا ہوں

ملا تو بیتے دنوں کا سچ اس کی آنکھ میں تھا
وہ آشنا جس سے مدتوں اجنبی رہا ہوں میں

بھلا دے مجھ کو کہ بے وفائی بجا ہے لیکن
گنوا نہ مجھ کو کہ میں تری زندگی رہا ہوں

وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسن
یہ ناز کم ہے کہ میں بھی اس کا کبھی رہا ہوں

Leave a Comment

ماہِ کامل نہ سہی پاس ، ستارہ کوئی ہے

ماہِ کامل نہ سہی پاس ، ستارہ کوئی ہے
یہ غلط فہمی رہی ہم کو ، ہمارا کوئی ہے

یہ جو بہتے ہوئے لاشے ہیں ، کہاں جاتے ہیں ؟
بول دریائے ستم تیرا کنارہ کوئی ہے ؟

بس ہوا ملتے ہی ہر یاد بھڑک اٹھتی ہے
یوں سمجھ راکھ کے اندر بھی شرارا کوئی ہے

کوئی دستک ہی نہ تھی اور نہ “میں ہوں” کی صدا
میں نے چوکھٹ پہ کئی بار پکارا ، کوئی ہے ؟

تو جو عامل ہے تو پھر توڑ بتا وحشت کا
اس محبت کی اذیت کا اتارا کوئی ہے ؟

آج کل تم بھی اکیلے ہو سنا ہے میں نے
تم تو کہتے تھے مرے بعد تمہارا کوئی ہے

کومل جوئیہ

Leave a Comment

حیاتِ عِشق میں یُوں حُسن شامِل ہوتا جاتا ہے

حیاتِ عِشق میں یُوں حُسن شامِل ہوتا جاتا ہے
جو ذرّہ جَگمگاتا ہے مِرا دِل ہوتا جاتا ہے
محبَّت میں یَقین و بےیَقینی کے دَوراہے پر
ہنسی کیسی مُجھے رونا بھی مُشکِل ہوتا جاتا ہے
وہ آغازِ جَفا تھا دَرد سے دِل کو شِکایَت تھی
یہ اَنجامِ وفا ہے دَرد بھی دِل ہوتا جاتا ہے
کہاں پہنچا دیا مُجھکو مِرے ضَبط و تَحَمُّل نے
کہ ہر ساعَت فُسُونِ حُسنِ باطِل ہوتا جاتا ہے
مُجھے اے کاش تیری بےرُخی مایُوس کر دیتی
یہ آساں کام بھی کِس دَرجہ مُشکِل ہوتا جاتا ہے
تُجھے تَو ناز تھا ساحِل پہ طُوفاں آشنائ کا
یہ کیوں سُبک سارانِ ساحِل ہوتا جاتا ہے
انوکھا جال پھیلایا ہے تاثِیرِ محبَّت نے
وہ جَلوَہ بھی شِکارِ جَذبِ کامِل ہوتا جاتا ہے
یہ کیا سمجھا رہے ہو تُم مِرے پَردے میں مَحفِل کو
مِرا رَنگِ تَغَیُّر رَنگِ مَحفِل ہوتا جاتا ہے
نَوِیدِ قُربِ مَنزِل دے رہے ہیں قافلے والے
دِلِ اِیذا طَلَب بیزارِ مَنزِل ہوتا جاتا ہے
مَیں جِس رَفتار سے طُوفاں کی جانِب بڑھتا جاتا ہُوں
اُسی رَفتار سے نزدِیک ساحِل ہوتا جاتا ہے
حُضُوری میں بھی بیتابی ہے دُوری میں بھی بیتابی
سُکُونِ دِل بہرِ تَقدِیر مُشکِل ہوتا جاتا ہے
سِتارے ڈُوبتے جاتے ہیں شمعیں بُجھتی جاتی ہیں
مُرَتّب خودبخود اَنجامِ مَحفِل ہوتا جاتا ہے
محبَّت میں مکان و لامکاں ہیں دو قدَم لیکِن
مُجھے یہ دو قدَم چلنا بھی مُشکِل ہوتا جاتا ہے
بہت دِن سر دُھنا ہے جُرمِ آغازِ محبَّت پر
اور اَب اَنجام سے احسانؔ غافِل ہوتا جاتا ہے
احسان دانش

Leave a Comment

گھنگھرو و پہ بات کر نہ تُو پائل پہ بات کر

گھنگھرو و پہ بات کر نہ تُو پائل پہ بات کر
مجھ سے طوائفوں کے مسائل پہ بات کر

فُٹ پاتھ پر پڑا ہوا دیوانِ مِیر دیکھ
رَدّی میں بِکنے والے رسائل پہ بات کر

گورے مُصَنِّفین کی کالی کُتُب کو پڑھ
کالے مُصَنِّفوں کے خصائل پہ بات کر

منبر پہ بیٹھ کر سُنا جھوٹی حکایتیں
خطبے میں سچ کے فَضل و فضائل پہ بات کر

اِس میں بھی اَجر ہے نہاں نَفلی نَماز کا
مسجد میں بھیک مانگتے سائل پہ بات کر

میرا دُعا سے بڑھ کے دوا پر یقین ہے
مجھ سے وَسیلہ چھوڑ، وسائل پہ بات کر

آ میرے ساتھ بیٹھ، مرے ساتھ چائے پی
آ میرے ساتھ میرے دلائل پہ بات کر

سردار ہیں جو آج وہ غدّار تھے کبھی
جا اِن سے اِن کے دورِ اوائل پہ بات کر

واصفؔ بھی سالِکوں کے قبیلے کا فرد ہے
واصفؔ سے عارِفوں کے شَمائل پہ بات کر

Leave a Comment

حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے

حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے
کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے

برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا
تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے

وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں
جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے

یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں
یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے

بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے
سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

تُو سر بریدہ ہوا شہرِ ناسپاساں میں
زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے

پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز
بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے

احمد فراز

Leave a Comment
%d bloggers like this: