Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

چاند سا چہرہ

چاند سا چہرہ ، نُور سی چتون ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ
خوب نکالا آپ نے جوبن ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ

گُل رُخِ نازک، زلف ھے سنبل آنکھ ھے نرگس ، سیب زنخداں
حُسن سے تم ھو غیرتِ گلشن ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ

ساقیِ بزمِ روزِ ازل نے بادۂ حسن بھرا ھے اس میں
آنکھیں ھیں ساغر ، شیشہ ھے گردن ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ

قہر غضب ظاھر کی رکاوٹ آفتِ جاں درپردہ لگاوٹ
چاہ کے تیور ، پیار کی چتون ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ

غمزہ اچکّا، عشوہ ھے ڈاکو قہر ادائیں ، سحر ھیں باتیں
چور نگاھیں، ناز ھے رھزن ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ

نور کا تن ھے ، نور کے کپڑے اُس پر کیا زیور کی چمک ھے
چَھلے، کنگن ، اِکے ، جوشن ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ

جمع کیا ضدّین کو تم نے سختی ایسی ، نرمی ایسی
موم بدن ھے ، دل ھے آھن ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ

واہ امیر ، ایسا ھو کہنا شعر ھیں یا معشوق کا گہنا
صاف ھے بندش ، مضموں روشن ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ

امیر مینائی

Leave a Comment

آپ اِس طرح تو ہوش اُڑایا نہ کیجیے

آپ اِس طرح تو ہوش اُڑایا نہ کیجیے
یُوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیے

یا سر پہ آدمی کو بِٹھایا نہ کیجیے
یا پھر نظر سے اُس کو گِرایا نہ کیجیے

یُوں مَدھ بھری نِگاہ اُٹھایا نہ کیجیے
پینا حرام ہے تو پلایا نہ کیجیے

کہیے تو آپ محو ہیں کس خیال میں
ہم سے تو دِل کی بات چُھپایا نہ کیجیے

تیغِ سِتم سے کام جو لینا تھا لے چُکے
اہلِ وفا کا یُوں تو صفایا نہ کیجیے

مَیں آپ کا، گھر آپ کا، آئیں ہزار بار
لیکن کسی کی بات میں آیا نہ کیجیے

اُٹھ جائیں گے ہم آپ ہی محفل سے آپ ہی
دُشمن کے رُوبرو تو بِٹھایا نہ کیجیے

دِل دور ہوں تو ہاتھ مِلانے سے فائدہ؟
رسمًا کسی سے ہاتھ مِلایا نہ کیجیے

محروم ہوں لطافتِ فطرت سے جو نصیرؔ
اُن بے حسوں کو شعر سُنایا نہ کیجیے

نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

آنکھ میں آنسو نہیں ہیں پر رُلاتا ہے بہت

آنکھ میں آنسو نہیں ہیں پر رُلاتا ہے بہت
وہ دسمبر , ہر دسمبر , یاد آتا ہے بہت

ساتھ میرے بھیگتا ہے بارشوں میں بیٹھ کے
یاد کے سارے دریچے کھول جاتا ہے بہت

روندتا ہے یہ جہاں کی ساری دیواریں کھڑی
دو قدم پر لا کے اس کو آزماتا ہے بہت

مسکراہٹ , گنگناہٹ , قہقہے , باتیں تری
خواب بن کے رات بھر مجھ کو جگاتا ہے بہت

مجھ کو دے جاتا ہے چھپ کے اس کی خوشبو کا پتہ
ایک دیوانے کو پاگل یہ بناتا ہے بہت

جانتا ہے جب نہ اب منزل کی مجھ کو آرزو
راہ میں اندھے کی کیوں شمعیں جلاتا ہے بہت

خواہشوں کے بیج بو کے خود چلا جاتا ہے یہ
وہ دسمبر , ہر دسمبر دل دْکھاتا ہے بہت

اتباف ابرک

Leave a Comment

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے

پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

پھر گرم نالہ ہائے شرربار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کیے ہوئے

پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صدہزار نمکداں کیے ہوئے

پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خون دل
ساز چمن طرازی داماں کیے ہوئے

باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے

دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جاں کیے ہوئے

دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے

پھر چاہتا ہوں نامۂ دل دار کھولنا
جاں نذر دل فریبی عنواں کیے ہوئے

مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے

اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے

پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بار منت درباں کیے ہوئے

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے

Leave a Comment

طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی

طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مِرا دِل تھا شگوفہ بھی شرر بھی

اُترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی

حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مِرے یار باندازِ دگر بھی

حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضا پر
آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی

سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں
آندھی نے گِرائے کئی سر سبز شجر بھی

وہ آگ جو پھیلی میرے دامن کو جلا کر
اُس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی

محسنؔ یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی

Leave a Comment

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں

اب تذکرہء خندۂ گل بار ہے جی پر
جاں وقفِ غمِ گریۂ شبنم ہے مری جاں

رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب
تصویر پریشانیٔ عالم ہے مری جاں

یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت
یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پرنم ہے مری جاں

ہم سادہ دلوں پر یہ شبِ غم کا تسلط
مایوس نہ ہو اور کوئی دَم ہے مری جاں

یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں

اے نزہتِ مہتاب ترا غم ہے مری زیست
اے نازشِ خورشید ترا غم ہے مری جاں

Leave a Comment

کون ہوں مجھ کو بتایا جائے

کون ہوں مجھ کو بتایا جائے
گر نہ مانوں تو منایا جائے

روز یاں سب کو ہے تازہ شکوہ
روز کس کس کو منایا جائے

حل نہیں مانا مرا ہے ممکن
مسئلہ پھر بھی اٹھایا جائے

مجھ کو حالات نہ سونے دیں گے
خواب دے کر ہی سلایا جائے

کب مرے گھر ہے گزر سورج کا
دیا کس وقت بجھایا جائے

اب محبت تو ہضم ہوتی نہیں
جامِ نفرت ہی پلایا جائے

سبھی پتھر ہیں مرے جانچے ہوئے
ان سے مجھ کو نہ ڈرایا جائے

مجھ سے ملنے کی تمنا ہو جسے
ایسا کوئی تو ملایا جائے

یوں نہ لوٹوں گا کہانی میں اب
پہلے انجام سنایا جائے

عشق دلدل کی طرح ہوتا ہے
اس میں کیا رستہ بنایا جائے

کیا راہوں نے ہے ایکا ابرک
راہ سے مجھ کو ہٹایا جائے

…… اتباف ابرک

Leave a Comment

بیت چلی برسات وے سانول

بیت چلی برسات وے سانول
آج تو کر لے بات وے سانول

تھام ہمارا ہاتھ بھی آ کر
دھول ہوئی یہ ذات وے سانول

راج کماری خاک تمہاری
دیکھ مری اوقات وے سانول

شام سے پہلے لوٹ کے آنا
آج نہ کرنا رات وے سانول

بھولےسے بھی بھول نہ پاؤں
تیری کوئی بات وے سانول

زین وہ ٹھہرے آن مقابل
کھالی ہم نے مات وے سانول

Leave a Comment

یہ حادثات نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں

یہ حادثات نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں
شکستہ ہو کے بھی، ناقابلِ شکست ہوں میں

متاعِ درد سے دل مالا مال ہے میرا ،
زمانہ کیوں یہ سمجھتا ہےکہ تنگدست ہوں میں

یہ انکشاف ہوا ہی نہیں کبھی مُجھ پر
خُودی پرست ہوں میں یا خُدا پرست ہوں میں

نہ پا سکیں گے ‘جوانانِ بادہ مست’ مُجھے
خُود اپنی ذات میں ‘خُم خانہءِ الست’ ہوں میں

قبول کس نے کیا میری سرپرستی کو ؟
بظاہر “ایک قبیلے کا سرپرست ہوں میں”

مِلا ہے فقر تو ورثے میں جَدّ ِ امجد سے
!!مُجھے یہ فخر ہے ساقی کہ فاقہ مست ہوں میں ۔۔۔۔

Leave a Comment

گلاب آنکھیں شراب آنکھیں

گلاب آنکھیں شراب آنکھیں
یہی تو ہیں لاجواب آنکھیں

انہیں میں الفت انہیں میں نفرت
سوال آنکھیں عذاب آنکھیں

کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں

کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں

کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی
کسی نے پائی شراب آنکھیں

وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور آنکھیں جناب آنکھیں

عجب تھا یہ گفتگو کا عالم
سوال کوئی جواب آنکھیں

یہ مست مست بے مثال آنکھیں
نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں

اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں
گریں تو کر دیں کمال آنکھیں

کوئی ہے انکے کراہ کا طالب
کسی کا شوق وصال آنکھیں

نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں
کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں

ہیں جینے کا اک بہانہ یارو
یہ روح پرور جمال آنکھیں

درّاز پلکیں وصال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں

شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھی حلال آنکھیں

ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں

~ ساغر صدیقی

Leave a Comment
%d bloggers like this: