Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

چیختے ہیں در و دیوار نہیں ہوتا میں

چیختے ہیں در و دیوار نہیں ہوتا میں
آنکھ کُھلنے پہ بھی بیدار نہیں ہوتا میں

ناؤ ہوں اور مرا ساحل سے بھی رشتہ ہے کوئی
یعنی دریا میں لگاتار نہیں ہوتا میں

خواب کرنا ہو سفر کرنا ہو یا رونا ہو
مجھ میں اک خوبی ہے بیزار نہیں ہوتا میں

کون آئے گا بھلا میری عیادت کے لیے
بس یہی سوچ کے بیمار نہیں ہوتا میں

اب بھلا اپنے لیے بننا سنورنا کیسا
تجھ سے ملنا ہو تو تیار نہیں ہوتا میں

تری تصویر تسلی نہیں کرتی میری
تری آواز سے سرشار نہیں ہوتا میں

عین ممکن ہے تری راہ میں مخمل ہو جاؤں
ہر کسی کے لیے ہموار نہیں ہوتا میں

تہذیب حافی

Leave a Comment

رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار

رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار
دوست ہوتے ہیں، ہر اک یار نہیں ہوتا یار

دو گھڑی بیٹھو مرے پاس، کہو کیسے ہو
دو گھڑی بیٹھنے سے پیار نہیں ہوتا یار

یار! یہ ہجر کا غم! اس سے تو موت اچھی ہے
جاں سے یوں ہی کوئی بیزار نہیں ہوتا یار

روح سنتی ہے محبت میں بدن بولتے ہیں
لفظ پیرایۂ اظہار نہیں ہوتا یار

نوکری، شاعری، گھر بار، زمانہ، قدریں
اک محبت ہی کا آزار نہیں ہوتا یار

خوش دلی اور ہے اور عشق کا آزار کچھ اور
پیار ہو جائے تو اقرار نہیں ہوتا یار

لڑکیاں لفظ کی تصویر چھپا لیتی ہیں
ان کا اظہار بھی اظہار نہیں ہوتا یار

آدمی عشق میں بھی خود سے نہیں گھٹ سکتا
آدمی سایۂ دیوار نہیں ہوتا یار

گھیر لیتی ہے کوئی زلف، کوئی بوئے بدن
جان کر کوئی گرفتار نہیں ہوتا یار

یہی ہم آپ ہیں ہستی کی کہانی، اس میں
کوئی افسانوی کردار نہیں ہوتا یار

Leave a Comment

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے

آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے

ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے

آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے

میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے

منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے

راحت اندوری

Leave a Comment

فراق سے بھی گئے ہم، وصال سے بھی گئے

فراق سے بھی گئے ہم، وصال سے بھی گئے
سُبک ہُوئے ہیں تو، عیشِ ملال سے بھی گئے

جو بُت کدے میں تھے، وہ صاحبانِ کشف و کمال
حَرم میں آئے، تو کشف و کمال سے بھی گئے

اُسی نِگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم
اُسی نِگاہ کے تیوَر سنبھال سے بھی گئے

غَمِ حیات و غَمِ دوست کی کشاکش میں
ہم ایسے لوگ تو، رنج و ملال سے بھی گئے

گُل و ثمر کا تو رونا الگ رہا، لیکن
یہ غم کہ فرقِ حرام و حلال سے بھی گئے

وہ لوگ، جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو، کیا تِری بزمِ خیال سے بھی گئے؟

ہم ایسے کون تھے، لیکن قفس کی یہ دُنیا
کہ پَر شکستوں میں اپنی مِثال سے بھی گئے

چراغِ بزم، ابھی جانِ انجمن، نہ بُجھا
کہ یہ بُجھا، تو ترے خد و خال سے بھی گئے

Leave a Comment

ایک تاریخِ مقرر پہ تُو ہر ماہ مِلے

ایک تاریخِ مقرر پہ تُو ہر ماہ مِلے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ مِلے.

رنگ اکھڑ جاۓ تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے

جمع تھے رات میرے گھر ترے ٹھکراۓ ہوۓ
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے

ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گِھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزرگاہ ملے

گھر پہنچنے کی نہ جلدی،نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سرِ راہ ملے

(عمیر نجمی)

Leave a Comment

میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری

میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
اسے خبر ہی نہ تھی، خاک کیمیا تھی مری

میں چپ ہوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ہوئی
پھر اس کے بعد تو آواز جا بجا تھی مری

جو طعنہ زن تھا مری پوششِ دریدہ پر
اسی کے دوش پہ رکھی ہوئی قبا تھی مری

میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں
میں اس کو بھول گیا ہوں، یہی سزا تھی مری

شکست دے گیا اپنا غرور ہی اس کو
وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی مری

کہیں دماغ کہیں دل کہیں بدن ہی بدن
ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی مری

کوئی بھی کوئے محبت سے پھر نہیں گزرا
تو شہرِ عشق میں کیا آخری صدا تھی مری؟

جو اب گھمنڈ سے سر کو اٹھائے پھرتا ہے
اسی طرح کی تو مخلوق خاکِ پا تھی مری

ہر ایک شعر نہ تھا در خورِ قصیدۂ دوست
اور اس سے طبعِ رواں خوب آشنا تھی مری

میں اس کو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فراز
یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری

Leave a Comment

آپکے دل سے اتـــــــر جاتے، کنارا کرتے

آپکے دل سے اتـــــــر جاتے، کنارا کرتے
آپ مبہم ســـــا اگــــــر ایک اشارہ کرتے

ہم نے دیکھی ھے جدائی میں وہ لذت کہ ہمیں
کرنا پڑتا تو یہی ہجــر دوبارہ کرتے

کس اذّیت میں ہمیں آپ نے چھوڑا تنہا
دوست ہوتے تو بھلا ایسے کنارہ کرتے

تشنگی لب پــــہ لیۓ ڈوبتے اس دریا میں
آپ ساحل پہ کھڑے ہوتے ، نظارہ کرتے

ہم تو شامل ہی نہیں حرفِ دعا میں تیرے
کیوں ترا ہاتھ بھی ہاتھوں میں گوارا کرتے

مسکراتی ہوئ آنکھوں کے مقابل بازی
جیت جاتے کبھی ہم اور کبھی ہارا کرتے

تو نے سمجھا ہی نہیں شوق کا عالم ورنہ
ہم دل و جاں سے ترا صدقہ اتارا کرتے

ہم تــــــرے ہاتھ پہ لکھ لیتے مقــدر اپنـــا
ہم تری آنکھ سے دنیا کو سنوارا کرتے

ہم کو ملتی تری دھلیز کی سوغات اگر
خاک کو چومتے ماتھے کا ستارا کرتے

Leave a Comment

شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے

شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے
میں بھٹکتا ہوں میرے ساتھ بھٹک جاتی ہے

جس الاؤ سے مجھے تم نے گزارا، مجھ پر
ہاتھ رکھو تو میری مٹی کھنک جاتی ہے

اتنا مانوس ہوں خود جا کے پکڑ لاتا ہوں
گھر کی ویرانی اگر راہ بھٹک جاتی ہے

اس کا مطلب ہے ابھی زندہ ہے پتھرائی نہیں
ہنسنے لگتا ہوں اگر آنکھ چھلک جاتی ہے

اب تسلسل سے میں خاموش نہیں رہ سکتا
بات کرلیتا ہوں خاموشی اٹک جاتی ہے

شور کرتے ہیں کسی یاد کے پنچھی مجھ میں
اور پھر بعد میں تنہائی بھڑک جاتی ہے

Leave a Comment

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کردے

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کردے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کردے

غرور اُس پہ بہت سجا ہے مگر کہدو
اِسی میں اُس کا بھلا ہے غرور کم کردے

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑا دے شراب کم کردے

چمکنے والی ہے تحریر میری قسمت کی
کوئی چراغ کی لَو کو ذرا سا کم کردے

کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دُعا دی تھی
زمین تیری خدا موتیوں سے نم کردے
بشیرؔ بدر

Leave a Comment

وقت کی عُمر کیا بڑی ہوگی

وقت کی عُمر کیا بڑی ہوگی
اک تیرے وصل کی گھڑی ہوگی

دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہوگی

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی ایک پنکھڑی ہوگی

زُلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہوگی

اے عدم کے مسافرو! ھوشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی

کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اَڑی ہوگی

اِلتجا کا مَلال کیا کیجیۓ..؟
اُن کے در پر کہیں پڑی ہوگی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی

Leave a Comment
%d bloggers like this: