Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمھیں ہوسِ نائے و نوش ہے

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے

لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
یہ جنتِ نگاہ وہ فردوسِ گوش ہے

یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

Leave a Comment

تیرے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں

تیرے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے کم

نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم

یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
مجھے پاس اپنے بلا لیا ، رہی بات میری تو کم سے کم

نہیں‌ جس میں تیری تجلیاں ، اسی جانچتی ہے نظر کہاں
تیرے نور کا نہ ظہور ہو تو وجود بھی ہے عدم سے کم

کبھی انعکاسِ جمال ہے ، کبھی عینِ شے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ ، کسی آئینے کے بھرم سے کم

مہ و آفتاب و نجوم سب ، ہیں ضیا فگن ، نہیں اس میں شک
ہے مسلم ان کی چمک دمک ، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم

یہی آرزو ، یہی مدعا ، کبھی وقت ہو تو سنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم

یہ نصیر دفترِ راز ہے ، یہ غبار راہِ نیاز ہے
کریں‌اس پہ اہل جہاں یقیں ، نہیں اِس کا قول ، قسم سے کم

Leave a Comment

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

پات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی

سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی

دل کو چمک سکے گا کیا، پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی

اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھئیے، بات تھی کچہ محال بھی

مری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی

اس کی سخن طرازیاں مرے لئے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی

گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی

اس کے بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہش پہ تھے روح کے اور جال بھی

شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار، کچھ تو مرا خیال بھی

Leave a Comment

ہمارے مِلنے کے یوں سبھی سلسلے رہینگے

ہمارے مِلنے کے یوں سبھی سلسلے رہینگے
مگر جو ہم میں گِلے رہے ہیں گِلے رہینگے

گھڑی بچھڑنے کی آگئی ہے گلے لگاؤ
وگرنہ دونوں یہاں پہ کب تک کھڑے رہینگے

کبھی تجھے میں کبھی مجھے تُو پکار لینا
نہیں تو جی میں ہزارہا وسوسے رہینگے

یہ میری شاخیں خزاں کے زیرِ اثر رہینگی
جو تیری ٹہنی پہ گُل کھِلے ہیں کھِلے رہینگے

کبھی کہیں جو تِرا مِرا سامنا ہُوا تو
ہم ایک دُوجے کو دم بخُود دیکھتے رہینگے

ہمارے شعروں کے دُکھ میں ڈھلتی ہُوئی یہ شامیں
کہ چائے خانوں میں یوں تِرے تذکرے رہینگے

وہ میکدہ ہو تِری گلی یا مِرا مکاں ہو
یہ قید خانے تو رات بھر ہی کُھلے رہینگے

کل عید کا دن بھی یوں ہی پُردرد ہی رہیگا
جو چاند راتوں میں خط لکھے ہیں لکھے رہینگے

Leave a Comment

اس واسطے لہجے مرے تلوار ہوئے ہیں

اس واسطے لہجے مرے تلوار ہوئے ہیں
چاہت کے سبھی وار جو بیکار ہوئے ہیں

ہر شام امڈ آتی ہے ان آنکھوں میں جو لالی
سب خواب ترے پیار میں مے خوار ہوئے ہیں

جو لوگ خدا تھے کبھی اپنی ہی زمیں کے
وہ آج مرے قدموں سے ہموار ہوئے ہیں

دل جن کا دھڑکتا تھا کبھی یوں نہ اکیلے
اب ذات سے میری وہی بے زار ہوئے ہیں

ہم وجد کے بانی تھے مگر بن کے یوں گھنگھرو
اب یار ترے قدموں کی جھنکار ہوئے ہیں

دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی ہے یہاں اب
سب اپنے پیادے ہی یوں غدار ہوئے ہیں

دستور عجب ہے مری بستی کا اے لوگو
وہ لوگ جو قاتل تھے سردار ہوئے ہیں

Leave a Comment

رقص کیا ہے دھمال ہے صاحب

رقص کیا ہے دھمال ہے صاحب
تشنگی کا کمال ہے صاحب

اب تو بینائی بھی چٹختی ہے
اس پہ اشکوں کا کال ہے صاحب

ہوک توڑے ہے حائطِ سینہ
سانس لینا محال ہے صاحب

عشق چھُو لے جسے تو اس کو پھر
دنیاداری وبال ہے صاحب

تم بھکاری جسے سمجھتے ہو
صاحبِ وجد و حال ہے صاحب

جو بھی کاتب نے لکھ دیا حق ہے
اس پہ تدبیر چال ہے صاحب

کون تقدیر سے مبرا ہے
کس کی اتنی مجال ہے صاحب

رقص کیا ہے دھمال ہے صاحب
تشنگی کا کمال ہے صاحب

اب تو بینائی بھی چٹختی ہے
اس پہ اشکوں کا کال ہے صاحب

ہوک توڑے ہے حائطِ سینہ
سانس لینا محال ہے صاحب

عشق چھُو لے جسے تو اس کو پھر
دنیاداری وبال ہے صاحب

تم بھکاری جسے سمجھتے ہو
صاحبِ وجد و حال ہے صاحب

جو بھی کاتب نے لکھ دیا حق ہے
اس پہ تدبیر چال ہے صاحب

کون تقدیر سے مبرا ہے
کس کی اتنی مجال ہے صاحب

Leave a Comment

بجھے چراغ سرِ طاق دھر کے روئے گا

بجھے چراغ سرِ طاق دھر کے روئے گا
وہ گزرا وقت کبھی یاد کر کے روئے گا

یہ جس مقام پہ بچھڑے ہیں آکے ہم دونوں
اسی مقام سے تنہا گزر کے روئے گا

مری ستائشی آنکھیں کہاں ملیں گی تجھے
تُو آئینے میں بہت بن سنور کے روئے گا

میں جانتا ہوں مرے پر کتَر رہا ہے وہ
میں جانتا ہوں مرے پر کتَر کے روئے گا

اسے تو صرف بچھڑنے کا دُکھ ہے اور مجھے
یہ غم بھی ہے وہ مجھے یاد کر کے روئے گا

مقامِ ربط کے زینے وہ جلدبازی میں
اتر تو جائے گا لیکن اتر کے روئے گا

وہ سخت جاں سہی لیکن مری جدائی میں
ظہیر ریت کی صورت بکھر کے روئے گا

Leave a Comment

تھم سی گئی ہے وقت کی رفتار، گھر میں رہ

تھم سی گئی ہے وقت کی رفتار، گھر میں رہ
نادیدہ اک عدو کی ہے یلغار، گھر میں رہ

شامل ہے بزدلوں میں تو باہر نکل کے بھاگ
دشمن سے گر ہے بر سرِ پیکار، گھر میں رہ

رہ کر بھی ساتھ ساتھ کبھی ہاتھ مت ملا
کر رسم و راہ سے سبھی انکار، گھر میں رہ

کہہ دے کہ گھر میں بیٹھنے والے ہیں ہم سبھی
دشمن کے آگے ڈال دے ہتھیار، گھر میں رہ

گھر میں ہی رہ کے لڑنا ہے اب کے عدو سے جنگ
اُس پر چلے گا تیر نہ تلوار، گھر میں رہ

دھو ہاتھ بار بار، نہ دھو زندگی سے ہاتھ
سانسوں سے تیری گھر میں ہے مہکار، گھر میں رہ

تسکین کتنے چہروں پہ ہے تجھ سے، یاد رکھ
باہر ہے گرم خوف کا بازار، گھر میں رہ

ٹوٹا ہوا بھی دل ہو تو مت رنج کر کوئی
گر اپنے آپ سے ہے تجھے پیار، گھر میں رہ

سیلاب ہے بلا کا، دریچے سے جھانک، دیکھ
خستہ سفینہ، ٹوٹی ہے پتوار، گھر میں رہ

چارہ گروں کا بھی ہے یہی سب سے التماس
حالات و وقت کا بھی ہے اصرار گھر میں رہ

تنہا سکوں سے بیٹھ کے خالق سے لو لگا
خود کو بنا لے رحم کا حق دار، گھر میں رہ

بے شک اگر ہے جان تو راغبؔ جہان ہے
دیوار و در ہیں تجھ سے ہی ضوبار، گھر میں رہ

Leave a Comment

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات
مرکزِ حمد و ثنا ہے تیری ذات

ساری دنیا کا ہے پالن ہار تُو
محورِ ارض و سما ہے تیری ذات

تیرے ہی رحم و کرم کی آس ہے
مالکِ یومِ جزا ہے تیری ذات

ہاتھ پھیلائے کوئی کس کے حضور
رب ہے تُو حاجت روا ہے تیری ذات

تُو ہی واقف ہے دلوں کے حال سے
منبعِ نورِ ہدیٰ ہے تیری ذات

ہے اگر کچھ تو ہے بس تیری عطا
کچھ نہیں تو آسرا ہے تیری ذات

کار سازی تیری ہر ذرّے میں ہے
ہر جگہ جلوہ نما ہے تیری ذات

مشکلیں راغبؔ کی بھی آسان کر
اے خدا! مشکل کشا ہے تیری ذات

Leave a Comment

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِرگِ سنگ

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِرگِ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک

محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک

آزاد کی دولت دل روشن، نفس گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک

محکوم ہے بیگانہء اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجہ افلاک

Leave a Comment
%d bloggers like this: