اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔۔
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔۔
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی،
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں۔۔
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو،
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔۔
تُو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا،
دونوں انسان ہیں تو کیوں نہ حجابوں میں ملیں۔۔
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر،
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں۔۔
اب نہ وہ میں ہوں، نہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز،
جیسے دو سائے تمنّا کے سرابوں میں ملیں۔۔
احمد فراز
Be First to Comment