Skip to content

حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے

حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے
کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے

برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا
تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے

وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں
جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے

یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں
یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے

بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے
سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

تُو سر بریدہ ہوا شہرِ ناسپاساں میں
زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے

پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز
بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے

احمد فراز

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: