کون سے تھے جو تمھارے عہد ٹوٹے نہ تھے
خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے تم جھوٹے نہ تھے
باغباں کچھ سوچ کہ ہم قید سے چھوٹے نہ تھے
ورنہ کچھ پاؤں نہ تھے بیکار، پر ٹوٹے نہ تھے
خار جب اہلِ جنوں کے پاؤں میں ٹوٹے نہ تھے
دامنِ صحرا پہ یہ رنگین گل بوٹے نہ تھے
رہ گئی محروم آزادی کے نغموں سے بہار
کیا کریں قیدِ زباں بندی سے ہم چھوٹے نہ تھے
اس جوانی سے تو اچھی تھی تمھاری کم سنی
بھول تو جاتے وعدوں کو مگر جھوٹے نہ تھے
اس زمانے سے دعا کی ہے بہاروں کے لئے
جب فقط ذکرِ چمن بندی تھا گل بوٹے نہ تھے
کیا یہ سچ ہے اے مرے صیاد گلشن لٹ گیا
جب تو میرے سامنے دو پھول بھی ٹوٹے نہ تھے
چھوڑ تو دیتے تھے رستے میں ذرا سی بات پر
رہبروں نے منزلوں پر قافلے لوٹے نہ تھے
کس قدر آنسو بہائے تم نے شامِ غم قمر
اتنے تارے تو فلک سے بھی کبھی ٹوٹے نہ تھے
قمر جلالوی
Be First to Comment