اشتیاقِ دید تھا آخر اُدھر جانا پڑا
اُن کی محفل میں بہ اندازِ نظر جانا پڑا
محو کرکے رنج و رسوائی کا ڈر جانا پڑا
تیرے کوچے میں نہ جانا تھا مگر جانا پڑا
عقل نے روکا بھی، دل تھا فتنہ گر، جانا پڑا
بے بُلائے بھی کچھ انسانوں کے گھر جانا پڑا
سیر گل کا مرحلہ تھا دام ہمرنگ زمیں
لے چلی باد صبا ہم کو جدھر جانا پڑا
اول اول تو رہی دل سے مرے بیگانگی
آخر آخر اُن کو شیشے میں اتر جانا پڑا
مسکرانے کی سزا ملنی تھی صحن باغ میں
پھول کی ایک ایک پتی کو بکھر جانا پڑا
در بدر پھرنے سے بہتر ہے کہیں کے ہو رہیں
ہم چلے جائیں گے اُس در تک، اگر جانا پڑا
بے رُخی اُن کی مسلسل دیکھ کر آخر نصیر
بزم سے اُٹھ کر ہمیں با چشمِ تر جانا پڑا
Be First to Comment