جنگ ٹھہری تھی میری گردش_تقدیر کے ساتھ
میں قفس میں بھی الجھتا رہا زنجیر کے ساتھ
اگر اس خواب کی تعبیر جدائی ہے تو پھر
ہم تو مر جائیں اس خواب کی تعبیر کے ساتھ
روح آباد کرو گئے تو بدن اجڑے گا
اک خرابی بھی جنم لیتی ہے تعبیر کے ساتھ
دل کے زخموں سے الجھتے ہیں بھٹک جاتے ہیں
لفظ ڈھلتے ہیں میرے شہر میں تاخیر کے ساتھ
ایسا قاتل ہے مسیحا کے با انداز جنوں
دل کو دل سے ملاتا ہے شمشیر کے ساتھ
آنکھ اب بھی برستا ہوا بادل ٹھہری
چاند اب کے بھی نظر آیا ہے تاخیر کے ساتھ
ہم جو نو وارد_ عقلیم سخن ہیں محسن
کبھی غالب کے مقلد تو کبھی میر کے ساتھ
Be First to Comment