تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا ، میری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہ سکا نہ تُو سُن سکا ، مِیری بات بیچ میں رہ گئی
میرے دل کو درد سے بھر گیا ، مجھے بے یقین سا کرگیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا ، میری بات بیچ میں رہ گئی
تیرے شہر میں میرے ھم سفر، وہ دُکھوں کا جمِّ غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مل سکا ، میری بات بیچ میں رہ گئی
وہ جو خواب تھے میرے سامنے، جو سراب تھے میرے سامنے
میں اُنہی میں ایسے اُلجھ گیا ، میری بات بیچ میں رہ گئی
عجب ایک چُپ سی لگی مجھے، اسی ایک پَل کے حِصار میں
ھُوا جس گھڑی تیرا سامنا، میری بات بیچ میں رہ گئی
کہیں بے کنار تھی خواھشیں، کہیں بے شمار تھی اُلجھنیں
کہیں آنسوؤں کا ھجوم تھا ، میری بات بیچ میں رہ گئی
تھا جو شور میری صداؤں کا، مِری نیم شب کی دعاؤں کا
ہُوا مُلتفت جو میرا خدا ، میری بات بیچ میں رہ گئی
تیری کھڑکیوں پہ جُھکے ھوئے، کئی پھول تھے ھمیں دیکھتے
تیری چھت پہ چاند ٹھہر گیا ، میری بات بیچ میں رہ گئی
میری زندگی میں جو لوگ تھے، مِرے آس پاس سے اُٹھ گئے
میں تو رہ گیا اُنہیں روکتا ، مِری بات بیچ میں رہ گئی
ِِتِری بے رخی کے حِصار میں، غم زندگی کے فشار میں
میرا سارا وقت نکل گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
مجھے وھم تھا ترے سامنے، نہیں کھل سکے گی زباں میری
سو حقیقتاً بھی وھی ھُوا، میری بات بیچ میں رہ گئی
امجد اسلام امجد
Be First to Comment