کیوں اور شکستہ ہوں یہ اعصاب ، لگی شرط
میں چھوڑ چکی دیکھنا اب خواب ، لگی شرط
اے شام کے بھٹکے ہوئے ماہتاب ، سنبھل کر
ہر چاند نگلتا ہے یہ تالاب ، لگی شرط
اچھا تو وہ تسخیر نہیں ہوتا کسی سے
یہ بات ہے تو آج سے احباب ، لگی شرط
پھر ایک اسے فون میں رو رو کے کروں گی
پھر چھوڑ کے آجائے گا وہ جاب ، لگی شرط
اس شخص پہ بس اور ذرا کام کرونگی
سیکھے گا محبت کے وہ آداب ، لگی شرط
جو دکھ کی رتوں میں بھی ہنسی اوڑھ کے رکھیں
ہم ایسے اداکار ہیں نایاب ، لگی شرط
جب چاہوں تجھے توڑ دوں میں کھول کے آنکھیں
اے چشم اذیت کے برے خواب ! لگی شرط
Be First to Comment