بہشت میں بھی پہنچ کر مجھے قرار نہیں
یہ کوئی اور جگہ ہے مقامِ یار نہیں
یہ کہہ کہ مجھکو لیے جا رہا ہے شوقِ وُجود
کہ آج سر نہیں یا آستانِ یار نہیں
گھٹا ہے ، برق ہے ، ساقی ، مے ہے ، یار نہیں
بہار تو ہے مگر ، حاصل ِ بہار نہیں
کبھی خیال کی حد میں تھا یار کا جلوہ
کہ اب ہے جلوہ ہی جلوہ ، خیالِ یار نہیں
کوئی بھی دیکھنے والوں میں ہوشیار نہیں
نگاہ ایک ہے جلوں کا کچھ شمار نہیں
وہ کوہِ طُور ہو یا سر زمین ِ دل بیدم
جمالِ یار سے خالی کوئی دیار نہیں
بیدمشاہوارثی
Be First to Comment